سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
41. باب في النَّهْيِ عَنِ الصَّرْفِ:
بیع صرف کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2614
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قالَ: سمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَلَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”سونے کے بدلے سونا (بیچو تو) نقداً ہو (ادھار نہ ہو، اسی طرح) چاندی کے بدلے چاندی (کی بیع) نقداً ہو، اور کھجور کے بدلے کھجور نقداً ہو، اور گندم کے بدلے گندم نقداً ہو، جو کے بدلے جو بھی نقداً ہو اور ان (تمام اجناس) کے درمیان کمی بیشی نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2620]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2134]، [مسلم 1586]، [أبوداؤد 3348]، [ترمذي 1243]، [نسائي 4572]، [ابن ماجه 2253]، [أبويعلی 149]، [ابن حبان 5013]، [الحميدي 12]
وضاحت: (تشریح حدیث 2613)
«هَاءَ وَهَاءَ» کا مطلب ہے: بائع اور مشتری سامان اور قیمت کا تبادلہ اسی وقت کر لیں، یعنی یہ سودا دست بدستی اس ہاتھ سے لیں اس ہاتھ سے دیں، خریدار روپے دے اور تاجر مال ادا کر دے، اور کسی ایک جنس میں کمی یا بیشی نہ ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک جنس کی کوئی بھی چیز خرید و فروخت میں ایک مجلس میں نقداً نقد اگر ادا کی جائے اور اس میں کمی بیشی بھی نہ ہو تو یہ بیع صرف ہے، سونے و چاندی کو سونے چاندی کے عوض خرید و فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ ادھار نہ بیچی جائے اور کمی بیشی بھی نہ ہو، سونا اگر سونے کے بدلے خریدنا ہو تو ایک مجلس میں ایک ہی وزن کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں، اگر بائع سونا دے اور مشتری ادھار لے کر بعد میں قیمت ادا کرے، یا بائع دس گرام سونا دے اور مشتری 11 گرام ادا کرے تو یہ تفاضل ہے، اور یہ ہی سود ہے جو حرام ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں پانچ اجناس ذکر کی گئی ہیں، دیگر احادیث میں نمک کا بھی ذکر ہے، نیز یہ کہ دیگر روایات میں ہے کہ جس نے ان اجناس میں زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا یا لیا، اور لینے و دینے والا دونوں برابر ہوں۔
یہ کل چھ اجناس ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں کمی و زیادتی ربا اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے، سب علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان چھ چیزوں (سونا، چاندی، کھجور، گندم، جو، اور نمک) کے علاوہ اجناس میں اگر ایک چیز کی بیع و شراء ہو تو ادھار اور تفاضل جائز ہے یا نہیں، جیسے جوار، باجرہ، چاول، چنا وغیرہ۔
جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سود کی علت جہاں پائی جائے گی وہ بھی سود ہی ہوگا، اور اہلِ ظاہر و امام شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے سود کو انہیں چھ اجناس میں محصور مانا ہے، باقی دیگر اشیاء میں نہیں۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه