من كتاب البيوع خرید و فروخت کے ابواب 43. باب الرُّخْصَةِ في اقْتِضَاءِ الْوَرِقِ مِنَ الذَّهَبِ: سونے کے بدلے چاندی لینے کی اجازت کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں بقیع کے پاس اونٹ بیچا کرتا تھا، دنانیر کے حساب سے بیچا اور پھر دراہم لے لیتا اور دراہم کے حساب سے بیچتا تو دنانیر لے لیتا (بعض روایات میں اخذ کی جگہ اقبض ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے)، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ذرا ٹھہریئے مجھے آپ سے سوال پوچھنا ہے۔ میں دنانیر کے عوض بقیع کے پاس اونٹ بیچتا ہوں اور درہم لے لیتا ہوں اور کبھی دراہم کے حساب سے اونٹ بیچتا ہوں اور دنانیر لے لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی قباحت نہیں اگر تم اسی دن کے نرخ (قیمت) سے لے لو جب تک کہ جدا نہ ہو ایک دوسرے پر باقی چھوڑ کر (یعنی حساب بے باق کر کے جدا ہو)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2623]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3354]، [ترمذي 1242]، [نسائي 4596]، [ابن ماجه 2262]، [ابن حبان 4920]، [الموارد 1128] وضاحت:
(تشریح حدیث 2616) واضح رہے کہ دینار سونے کا اور درہم چاندی کا ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں سونے کے بدلے چاندی لینا یا چاندی کے بدلے سونا لینا جائز قرار دیا گیا ہے جبکہ ایک ہی مجلس میں اسی دن کی قیمت کے حساب سے لیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کی قیمت کے برابر دراہم لینا یا دراہم کی قیمت کے برابر دنانیر لینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ جدا ہونے سے پہلے ادا ئیگی ہوجائے۔ خلاصہ یہ کہ سونے چاندی کا ایک دوسرے کی جگہ وصول کرنا اس صورت میں جائز ہے کہ دست بدست ہو، اور پوری ادائیگی موقع پر ہو، ادھار نہ ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|