من كتاب البيوع خرید و فروخت کے ابواب 45. باب في السَّلَفِ: بیع سلف کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت اہلِ مدینہ پھلوں میں دو اور تین سال کی قیمت پیشگی ادا کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھلوں کی پیشگی قیمت دیتے وقت ماپ تول اور وزن معلوم و متعين کر لو۔“
سفیان رحمہ اللہ ایک زمانے تک «إلی أجل معلوم» (یعنی مدت بھی متعین ہو) زمانے کی بھی قید کا ذکر کیا کرتے تھے، پھر عبداللہ بن کثیر نے ان کو شک میں ڈال دیا۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري وأبو المنهال هو: عبد الرحمن بن مطعم والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2625]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2240]، [مسلم 1604]، [أبوداؤد 3463]، [ترمذي 1311]، [نسائي 4630]، [ابن ماجه 2280]، [أبويعلی 2407]، [ابن حبان 4925]، [الحميدي 520] وضاحت:
(تشریح حدیث 2618) بیع سلف اور سلم کا مادہ اور معنی ایک ہی ہے۔ سلف اس بیع کو کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے شخص کو نقد روپیہ دے اور کہے کہ اتنی مدت کے بعد مجھ کو تم ان روپیوں کے عوض میں اتنا غلہ یا چاول فلاں قسم والے دینا، عام بول چال میں اسے بدہنی بولتے ہیں، اور یہ بیع بالاجماع جائز ہے، بعض لوگوں نے کہا: لفظ سلف اہلِ عراق کی لغت ہے اور سلم اہلِ حجاز کی، معنی دونوں کے ایک ہی ہیں، اور کیل وزن سے ماپ اور تول مراد ہیں۔ اس حدیث میں سلف کی صورت یہ سامنے آئی جیسے کوئی کہے: سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے ٹھیک ایک یا دو سال بعد تم سے وصول کروں گا، یہ طے کر کے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کر دیا، یہ بیع سلم یا سلف ہے۔ اب مدت پوری ہونے پر وزنِ مقرر کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا، یہ جائز ہے۔ (راز رحمہ اللہ)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے، اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا، اور فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري وأبو المنهال هو: عبد الرحمن بن مطعم والحديث متفق عليه
|