من كتاب البيوع خرید و فروخت کے ابواب 6. باب في الْكَسْبِ وَعَمَلِ الرَّجُلِ بِيَدِهِ: روزی اور آدمی کی ہاتھ کی کمائی کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور آدمی کی اولاد اس کی بہترین کمائی ہے۔“
(ابن ماجہ میں ہے سو تم ان کے مال سے کھاؤ۔) تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2579]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3528]، [ترمذي 1358]، [نسائي 4461]، [ابن ماجه 2290]، [ابن حبان 4259]، [موارد الظمآن 1091] وضاحت:
(تشریح حدیث 2572) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال اڑا بھی دیں تو بھی بیٹے کو لازم ہے کہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، اور نہ ان سے سخت کلامی کرے۔ اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے محبت سے پالا پوسا، پیشاب پائخانہ دھویا، کھلایا پلایا، لکھایا پڑھایا۔ یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان ادا نہ ہو سکے، اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضا مندی پر اس کی نجات منحصر ہے۔ اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی، اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی، اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے۔ اگر ماں باپ بیٹے کا روپیہ اڑا دیں تو کمالِ خوشی کرنا چاہیے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آوے، یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہو، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہیے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن، میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں، میں آپ کا غلام ہوں، یہی سعادت مندی اور راہِ نجات ہے، اور فلاح و کامرانی ہے۔ (وحیدی)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
|