سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
72. باب في النَّهْيِ عَنِ الْمُخَابَرَةِ:
مخابرہ کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2651
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الحسن، عن زكريا بن إسحاق، حدثنا ابو الزبير: انه سمع جابرا يقول: كنا نخابر قبل ان ينهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخبر بسنتين او ثلاث، على الثلث، والشطر، وشيء من تبن، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من كانت له ارض فليحرثها، فإن كره ان يحرثها، فليمنحها اخاه، فإن كره ان يمنحها اخاه، فليدعها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: كُنَّا نُخَابِرُ قَبْلَ أَنْ يَنْهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخِبْرِ بَسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ، عَلَى الثُّلُثِ، وَالشَّطْرِ، وَشَيْءٍ مِنْ تِبْنٍ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَحْرُثْهَا، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَحْرُثَهَا، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَمْنَحَهَا أَخَاهُ، فَلْيَدَعْهَا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخابرہ سے منع کرنے سے پہلے ہم زمین کو کاشت کے لئے دو اور تین سال تک ایک تہائی یا آدھے ساجھے پر دیا کرتے تھے، بھوسے کے عوض بٹائی پر دیتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو وہ خود اس میں کاشتکاری کرے، اگر اس کو کھیتی کرنا پسند نہ ہو تو اس زمین کو اپنے بھائی کو دے دے، اور اگر اپنے بھائی کو بھی دینا پسند نہ ہو تو اسے پڑا رہنے دے (یعنی کرائے پر نہ چلائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو الحسن هو أحمد بن عبد الله بن مسلم الحراني والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2657]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالحسن کا نام احمد بن عبداللہ بن مسلم حرانی ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2340]، [مسلم 1536/89]، [أبويعلی 1844]، [ابن حبان 4995]، [الحميدي 1318]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2650)
مخابره: زمین بٹائی پر دینے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ مزارع اور مالکِ زمین کے درمیان پیداوار کے نصف، ثلث یاریع پر معاملہ طے کیا جائے کہ مزارع اپنی خدمت کے بدلے میں پیداوار کا نصف، تہائی یا چوتھائی حصہ وصول کرے گا، باقی مالکِ زمین کا ہوگا، اسی طرح مزارعہ ہے، اور بعض علماء نے کہا: جب تخم زمین کا مالک دے تو وہ مزارعت ہے، اور جب کام کرنے والا تخم اپنے پاس سے ڈالے تو وہ مخابرہ ہے۔
بہرحال مزارعہ اورمخابرہ دونوں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، لیکن اس ممانعت کے باوجود علمائے کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے اس کو جائز کہا اور بعض نے ناجائز کہا ہے، اور اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ بیع مخابرہ مطلقاً ممنوع نہیں بلکہ لوگ زمین کے کسی حصے کی پیداوار کو مزارع کے لئے اور کسی حصے کی پیداوار کو مالکِ زمین کے لئے مخصوص کر لیتے تھے، بسا اوقات مزارع والا حصہ صحیح سلامت رہ جاتا اور مالک والا تباہ ہو جاتا، اور کبھی اس کے برعکس ہو جاتا، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے امر سے منع فرمایا۔
اس طرح کا طے شدہ معاملہ کہ زمین سے جو پیداوار حاصل ہو اس کو طے شدہ حصہ یا مقدار میں مالکِ زمین اور مزارع تقسیم کریں گے، مثلاً چوتھا یا تیسرا حصۂ پیداوار کاشتکار کا اور بقیہ سارا مالکِ زمین کا، تو اس میں کوئی نہ مضائقہ ہے، نہ حرج، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اہلِ خیبر سے اسی اصول پر معاملہ طے فرمایا تھا۔
اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ ائمۂ ثلاثہ بٹائی پر زمین دینے کے قائل ہیں۔
اس حدیث میں خود زراعت کرنے کی ترغیب ہے، یا پھر اپنے بھائی کو دیدیں، اور آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ بٹائی پر نہ دیں، لیکن دوسری بہت سی احادیث میں زمین کرائے یا بٹائی پر دینے کی اجازت آئی ہے، اور ممانعت صرف اسی حالت میں ہے کہ جگہ مخصوص کر دی جائے کہ اس جگہ کی کاشت کو کاشتکار لے گا، اور اس کے بہہ جانے یا خراب ہو جانے کا اندیشہ ہو تو مبیع مجہول ہونے کے سبب یہ ناجائز ہوگا۔
مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
اور [مسلم شريف 3935] میں صراحت ہے کہ اپنی زمین بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں بھائی کو دینا اگر خود کاشتکاری نہ کرے تو افضل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو الحسن هو أحمد بن عبد الله بن مسلم الحراني والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2652
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن علي بن مسهر، عن ابي إسحاق الشيباني، عن عبد الله بن السائب، قال: سالت عبد الله بن معقل عن المزارعة، فقال: اخبرني ثابت بن الضحاك الانصاري: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"نهى عن المزارعة". قال لعبد الله: تقول به؟. قال: لا اقول بالاول.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْقِلٍ عَنِ الْمُزَارَعَةِ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ الْأَنْصَارِيُّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ". قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَقُولُ بِهِ؟. قَالَ: لَا أَقُولُ بِالْأَوَّلِ.
عبداللہ بن سائب نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مزارعت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سیدنا ثابت بن ضحاک انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے (یعنی بٹائی پر زمین دینے سے) منع فرمایا۔ راوی نے امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، میں پہلے قول کا قائل ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2658]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابواسحاق کا نام سلیمان بن ابی سلیمان ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1549]، [شرح معاني الآثار 107/4]، [البيهقي 133/6]، [ابن حزم فى المحلی 182/8]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2651)
یہ حدیث مزارعت کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے، اور بظاہر ان احادیث کے معارض و مخالف ہے جن میں اس کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، لیکن ابوداؤد میں سیدنا عروة رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ اشکال بھی رفع ہو جاتا ہے۔
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: الله تعالیٰ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے۔
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس حدیث کا مجھے ان سے زیادہ علم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو انصاری آئے، دونوں جھگڑ رہے تھے، یہ صورتِ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری یہ حالت ہے تو پھر کھیتی باڑی ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔
سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے حدیث کا پہلا حصہ نہیں سنا اور صرف «لا تكرو المزارع» سن لیا، اس لئے صحیح صورتِ حال ان کو سمجھ نہ آسکی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع تو نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کسی ایک کا اپنی زمین کو فائدہ اٹھانے کے لئے دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کے بدلے میں معلوم و معین محصول لے، اور یہ بھی کہا گیا کہ اس حدیث میں جو نہی ہے وہ قبل از اسلام رائج طریقہ کی ہے، نیز یہ بھی کہا گیا کہ یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آغازِ اسلام میں مہاجرین ضرورت مند تھے، ان کے پاس زمین نہیں تھی۔
انصار کے پاس زمینیں کافی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح ان کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اسی طرح انصار کو اپنے بے وطن مہاجرین کو بطورِ احسان زمین دلانے کے لئے حکمت کے طور پر مزارعہ سے منع فرمایا تاکہ بغیر کسی محصول کے اپنے بھائیوں کو زمین عطا کر دیں۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.