من كتاب البيوع خرید و فروخت کے ابواب 7. باب في التُّجَّارِ: تجار کا بیان
اسماعیل بن عبيد بن رفاعہ نے اپنے والد سے انہوں نے ان کے دادا (رفاعہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے گئے، فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت!“، جب وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجار قیامت کے دن فجار کی صورت میں لائے جائیں گے سوائے اس تاجر کے جو الله تعالیٰ سے ڈرا، نیکی اور سچائی اختیار کی۔“
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابونعیم کہتے تھے: عبیداللہ بن رفاعہ حالانکہ وہ اسماعیل بن عبید بن رفاعہ ہیں۔ تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2580]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4910]، [طبراني 44/5، 4540]، [تهذيب الآثار مسند على 93]، [شعب الايمان للبيهقي 4849] وضاحت:
(تشریح حدیث 2573) اس حدیث میں ایسے تاجروں کے لئے وعیدِ شدید ہے جو ہر حلال و حرام طریقے سے جھوٹ سچ بول کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا حشر فساق و فجار اور گنہگاروں کے ساتھ ہوگا، اور جو تقویٰ و پرہیزگاری، ایمان داری و سچائی سے تجارت کرے وہ قیامت کے دن اچھے لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ یہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے تین نہایت زرین بنیادی اصول بیان کئے ہیں، اور وہ ہے: پرہیز گاری، سچائی، اور امانت داری، جو بھی ان اصولوں کو اپنائے گا اس کی تجارت میں دوسروں کو اعتماد، بھروسہ اور اطمینان ہوگا، اور دن دونی رات چوگنی برکتیں نازل ہوں گی۔ بھوپال میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مونگ پھلی کا بڑا سا تھیلا لٹکائے بازار سے نکلتے اور آواز لگاتے: ٹھنڈی مونگ پھلی نہ ہاتھ جلائے نہ منہ، کوئی کوئی خراب بھی نکل جائے۔ یقین جانئے سچی بات پر لوگ خوب خوب ان سے مونگ پھلی خریدتے اور بہت جلدی ان کا تھیلا خالی ہو جایا کرتا تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|