حدثنا موسى، قال: حدثنا عمر بن عبد الله الرومي، قال: اخبرني ابي، عن انس بن مالك، قال: قيل له: إن إخوانك اتوك من البصرة وهو يومئذ بالزاوية، لتدعو الله لهم، قال اللهم اغفر لنا، وارحمنا، وآتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار، فاستزادوه، فقال مثلها، فقال: إن اوتيتم هذا، فقد اوتيتم خير الدنيا والآخرة.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: إِنَّ إِخْوَانَكَ أَتَوْكَ مِنَ الْبَصْرَةِ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ بِالزَّاوِيَةِ، لِتَدْعُوَ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا، وَآتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، فَاسْتَزَادُوهُ، فَقَالَ مِثْلَهَا، فَقَالَ: إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا، فَقَدْ أُوتِيتُمْ خَيْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ آپ کے کچھ بھائی بصرہ سے آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ آپ ان کے لیے دعا کریں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ان دنوں زاویہ مقام پر تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی: اے اللہ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ انہوں نے مزید دعا کی درخواست کی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے پھر اسی طرح دعا کی اور فرمایا: اگر تمہیں یہ مل گیا تو تمہیں دنیا و آخرت کی خیر مل گئی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: رواه ابن حبان: 145/2، 934، من طريق أبى يعلى و هذا فى مسنده: 125/6، 3397، بسند صحيح عن ثابت و ابن أبى شيبة: 77/6»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 633
فوائد ومسائل: یہ دعا بہت عظیم اور جامع مانع ہے۔ یہ دعا مانع اس لحاظ سے ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں ”حسنۃ“ بھلائی عطا کر، گویا جو چیز ظاہری طور پر اچھی ہے اور حقیقت میں اچھی نہیں اس کو اللہ کے سپرد کر کے کہا گیا ہے کہ اے اللہ اگر یہ چیز اچھی ہے یاجب یا جتنی اچھی ہے عطا کر ورنہ اس سے مجھے دور رکھ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیشتر یہ دعا پڑھا کرتے تھے اور طواف کے دوران بھی ان الفاظ سے دعا کرتے تھے۔ اللہ کی بخشش، اس کی رحمت اور دنیا و آخرت کی بھلائی مل جائے تو مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ نیز معلوم ہوا کہ کسی نیک بزرگ سے دعا کروانے کے لیے جانا جائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 633