حدثنا الصلت بن محمد، قال: حدثنا مهدي بن ميمون، عن الجريري، عن جبر بن حبيب، عن ام كلثوم ابنة ابي بكر، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وانا اصلي، وله حاجة، فابطات عليه، قال: ”يا عائشة، عليك بجمل الدعاء وجوامعه“، فلما انصرفت، قلت: يا رسول الله، وما جمل الدعاء وجوامعه؟ قال: ”قولي: اللهم إني اسالك من الخير كله، عاجله وآجله، ما علمت منه وما لم اعلم، واعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله، ما علمت منه وما لم اعلم، واسالك الجنة وما قرب إليها من قول او عمل، واعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول او عمل، واسالك مما سالك به محمد صلى الله عليه وسلم، واعوذ بك مما تعوذ منه محمد صلى الله عليه وسلم، وما قضيت لي من قضاء فاجعل عاقبته رشدا.“حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ جَبْرِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أُمِّ كُلْثُومِ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، وَلَهُ حَاجَةٌ، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: ”يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِجُمَلِ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعِهِ“، فَلَمَّا انْصَرَفْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جُمَلُ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعُهُ؟ قَالَ: ”قُولِي: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ، وَأَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ مِمَّا سَأَلَكَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِمَّا تَعَوَّذَ مِنْهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا قَضَيْتَ لِي مِنْ قَضَاءٍ فَاجْعَلْ عَاقِبَتَهُ رُشْدًا.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کسی کام کی غرض سے تشریف لائے جبکہ میں نماز میں مصروف تھی۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! جامع قسم کی دعا کیا کرو۔“ جب میں نے نماز ختم کی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جامع قسم کی دعا کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو: اے اللہ میں تجھ سے ہر جلد یا بہ دیر آنے والی بھلائی کا سوال کرتی ہوں۔ جس کو میں جانتی ہوں اور جس کو نہیں جانتی۔ اور میں تجھ سے دنیا و آخرت کے شر سے پناہ چاہتی ہوں، جس کا مجھے علم ہو اور جس کا علم نہ ہو۔ اور میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کی سوالی ہوں۔ اور میں آگ سے تیری پناہ مانگتی اور ہر اس بات اور عمل سے بھی پناہ مانگتی ہوں جو مجھے اس کے قریب کرے۔ اور میں اس چیز کا سوال کرتی ہوں جس کا سوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتی ہوں جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی، اور تو نے جو فیصلہ بھی میرے لیے کیا اس کا انجام اچھا کر دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه: 3846 - انظر الصحيحة: 1542»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 639
فوائد ومسائل: (۱)اس سے مسنون دعاؤں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ ان میں کس قدر عظیم فائدہ ہے کہ تھوڑے وقت اور قلیل الفاظ سے انسان بے پناہ خیر و برکت حاصل کرسکتا ہے۔ (۲) جو لوگ مسنون دعائیں چھوڑ کر خود ساختہ وظائف اور من گھڑت اذکار کے پیچھے دوڑتے ہیں، انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کا ادراک ہی نہیں۔ ان کی مثال اس پیاسے کی طرح ہے جو مسلسل پیے جاتا ہے لیکن سیراب نہیں ہوتا۔ آپ کے بتائے ہوئے الفاظ جامع مانع ہیں۔ ان کے ساتھ دعا کرنے کا دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک اتباع سنت کا اور دوسرا دعا کا۔ (۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جامع کلمات عطا کیے ہیں کہ ان کے الفاظ تھوڑے اور مفہوم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعاؤں کو یاد کرنا چاہیے اور ان کے ذریعے سے دعا کرنی چاہیے۔ خود ساختہ لمبی چوڑی دعاؤں سے یہ بدرجہا بہتر ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 639