البيوع والكسب والزهد خرید و فروخت، کمائی اور زہد کا بیان ख़रीदना, बेचना, कमाई और परहेज़गारी نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صدقہ و خیرات سے شدید محبت “ रसूल अल्लाह ﷺ की सदक़ह और दान पूण से मुहब्बत ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند ہو گی (کہ میں اس کو اتنا جلدی راہ حق میں خرچ کر دوں) کہ تین راتیں نہ گزرنے پائیں اور اس کی کچھ مقدار میرے پاس باقی ہو مگر اتنا حصہ جس کا میں قرضہ چکانے کے لیے روک لوں۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے بقدر سونا ہو اور (تیسرے دن کی) شام ہو جائے اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی باقی ہو، مگر وہ دینار جس کو قرضہ چکانے کے لیے اپنے پاس رکھ لوں۔“ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے اور دائیں بائیں تمثیل پیش کرتے ہوئے چلو بھر بھر کر ڈالے اور فرمایا) میں تو چاہوں گا کہ اس مال کو بندگان خدا میں اس طرح تقسیم کر دوں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرے پاس احد پہاڑ کے بقدر سونا ہو اور (تیسرے دن کی) رات آ جائے اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی میرا ہو، مگر وہ (سونا) جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لیے روک لوں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ”عائشہ! سونے کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس لے کر آؤ۔“ میں لے آئی۔ وہ نو یا پانچ دینار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اپنے رب کے بارے میں کیا گمان ہو گا۔ اگر وہ اپنے رب کو اس حال میں ملے کہ یہ سونا اس کے پاس ہو؟ اب اس طرح کرو کہ اس کو (فوراً) خرچ کر دو۔“ یزید راوی نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر کے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی کیفیت بیان کی)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ”عائشہ! سونے کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس لے کر آؤ۔“ وہ نو یا پانچ دینار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے بارے میں کیا گمان ہو گا، اگر وہ اپنے رب کو اس حال میں ملے کہ یہ سونا اس کے پاس ہو؟ اب اس طرح کرو کہ اس کو (فوراً) خرچ کر دو۔“ یزید راوی نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر کے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی کیفیت بیان کی)۔
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دن میں اور عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا: اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روز دیکھتے، جس دن آپ بیمار ہوئے اور میرے پاس آپ کے چھ دینار تھے۔ موسی راوی کا بیان ہے کہ چھ یا سات دینار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کو خرچ کر دینے کا حکم صادر فرمایا، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کی وجہ سے (آپ کی خدمت میں) مصروف تھی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاء دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ان کے بارے میں دریافت کیا اور فرمایا: ”ان چھ یا سات دیناروں کا کیا بنا؟“ میں نے کہا: بخدا! آپ کی تکلیف نے اتنا مشغول کر دیا کہ میں ان کو خرچ نہ کر سکی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دینار منگوائے اور اپنی ہتھیلی پر رکھے اور فرمایا: ”اللہ کے نبی کا (اپنے رب کے بارے میں) کیا گمان ہو گا، اگر وہ اس کو اس حال میں ملے کہ یہ اس کے پاس ہوں۔“ یعنی یہ چھ یا ساتھ دینار۔
|