كتاب اللباس کتاب: لباس کے احکام و مسائل 9. باب مَا جَاءَ فِي جَرِّ ذُيُولِ النِّسَاءِ باب: عورتوں کے دامن لٹکانے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا“، ام سلمہ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکا لیں“، انہوں نے کہا: تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکائیں ۱؎ اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 7526) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑا لٹکانے کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حکم ہے، مردوں کے لیے آدھی پنڈلی تک لٹکانا زیادہ بہتر ہے، تاہم ٹخنوں تک رکھنے کی اجازت ہے، لیکن ٹخنوں کا کھلا رکھنا بےحد ضروری ہے، اس کے برعکس عورتیں نہ صرف ٹخنے بلکہ پاؤں تک چھپائیں گی، خاص طور پر جب وہ باہر نکلیں تو اس کا خیال رکھیں کہ پاؤں پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3580 - 3581)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کے «نطاق» کے لیے ایک بالشت کا اندازہ لگایا ۱؎۔
۱- بعض لوگوں نے اسے «حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن الحسن عن أمه عن أم سلمة» کی سند سے روایت کی ہے، ۲- اس حدیث میں عورتوں کے لیے تہ بند (چادر) گھسیٹنے کی اجازت ہے، اس لیے کہ یہ ان کے لیے زیادہ ستر پوشی کا باعث ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابی داود/ اللباس 40 (4117-4118)، و ق /اللباس 13 (3508)، (تحفة الأشراف: 8257) (صحیح) (ابوداود اور ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک بالشت کے برابر لٹکانے کی اجازت دی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3580)
|