كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 56. بَابُ: عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا باب: حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کر لی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 39 (5320)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2029)، (تحفة الأشراف: 11272)، موطا امام مالک/الطلاق 30 (85)، مسند احمد (4/327)، ویأتي فیما یلي (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نفاس سے فراغت کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسنابل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کو مرے ہوئے ۲۳ یا ۲۵ راتیں گزریں تھیں کہ اس نے بچہ جنا پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئی تو اس نے (نئی) شادی کی تیاری کی اور اس کے لیے زیب و زینت سے مزین ہوئی تو اس کے لیے ایسا کرنا غیر مناسب سمجھا (اور ناپسند کیا) گیا اور اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کی گئی تو آپ نے فرمایا: ”جب اس کی عدت پوری ہو چکی ہے تو اب اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطلاق 17 (1193)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2027)، (تحفة الأشراف: 12053)، مسند احمد (4/304، 305)، سنن الدارمی/الطلاق 11 (2327) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ ایسا کر سکتی ہے یہ کوئی عیب و برائی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم میں اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہو گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور اس نے بچہ جن دیا ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (وضع حمل کے بعد نفاس سے فارغ ہو کر) وہ شادی کر سکتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (یعنی وضع حمل اور عدت طلاق) میں سے جس عدت کی مدت لمبی ہو گی اسے وہ عدت پوری کرنی ہو گی (یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد ہی وہ شادی کر سکے گی) آخر کار ان لوگوں نے کسی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا سبیعہ رضی اللہ عنہا کے شوہر انتقال کر گئے اور ان کے انتقال کے پندرہ دن بعد اس نے بچہ جنا۔ پھر اسے دو آدمیوں نے شادی کا پیغام دیا، جن میں سے ایک کی طرف وہ مائل ہو گئی (اور اس کا بھی خیال اس سے شادی کر ڈالنے کا ہو گیا) تو جب (دوسرا شادی کا خواہشمند اور اس کے ساتھی) لوگ ڈرے کہ یہ تو ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے تو انہوں نے (شادی روکنے اور رکاوٹ ڈالنے کی خاطر) کہا: ابھی تو تم حلال ہی نہیں ہوئی ہو (تمہاری عدت پوری نہیں ہوئی ہے تم شادی رچانے کیسے جا رہی ہو) وہ کہتی ہیں (جب ان لوگوں نے یہ بات کہی) تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی، آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ تم حلال ہو گئی ہو تو جس سے بھی چاہو اس سے نکاح کر سکتی ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد النسائي (تحفة الأشراف: 18233)، مسند احمد (6/311، 319) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس عورت (کی عدت) کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور وہ (انتقال کے وقت) حاملہ رہی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو آخر میں ہو یعنی لمبی ہو اور دوسری کے مقابل میں بعد میں پوری ہوتی ہو ۱؎، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس وقت عورت بچہ جنے اسی وقت اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ (یہ اختلاف سن کر) ابوسلمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے پندرہ دن بعد بچہ جنا پھر دو آدمیوں نے اسے شادی کرنے کا پیغام دیا، ان دونوں میں سے ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر کا، وہ جوان کی طرف مائل ہوئی اور اسے شادی کے لیے پسند کر لیا۔ ادھیڑ عمر والے نے اس سے کہا: تو تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو (شادی کرنے کیسے جا رہی ہو)، اس کے گھر والے غیر موجود تھے ادھیڑ عمر والے نے امید لگائی (کہ میرے ایسا کہنے سے شادی ابھی نہ ہو گی اور) جب لڑکی کے گھر والے آ جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کا اس کے ساتھ رشتہ کر دینے کو ترجیح دیں (اور سبیعہ کو اس کے ساتھ شادی کر لینے پر راضی کر لیں)۔ لیکن وہ تو (سیدھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم (بچہ جن کر) حلال ہو چکی ہو، تمہارا دل جس سے چاہے اس سے شادی کر لو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آیت: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا» (البقرة: 234) کے مطابق ایک عدت چار مہینہ دس دن کی ہے اور دوسری عدت آیت: «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» (الطلاق: 4) کے مطابق وضع حمل ہے۔ ۲؎: گویا ابوہریرہ رضی الله عنہ کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں درست تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنے شوہر کے انتقال کے بیس رات بعد بچہ جنا، کیا اس کے لیے نکاح کر لینا جائز و درست ہو گا؟ انہوں نے کہا: اس وقت تک نہیں جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے بعد میں مکمل ہونے والی عدت کو پوری نہ کر لے۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» یعنی ”جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں“۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ حکم مطلقہ (حاملہ) کا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ابوسلمہ جو کہتے ہیں وہی میرے نزدیک بھی صحیح اور بہتر ہے) اس گفتگو کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو بھیجا کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت موجود ہے؟ کریب ان کے پاس آئے اور انہیں (ساری بات) بتائی، تو انہوں نے کہا: ہاں، سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کی بیس راتیں گزرنے کے بعد بچہ جنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کی اجازت دی، اور ابوسنابل رضی اللہ عنہ انہیں لوگوں میں سے تھے جن ہوں نے اسے شادی کا پیغام دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق 2 (4909)، صحیح مسلم/الطلاق 8 (1485)، سنن الترمذی/الطلاق 17 (1194)، (تحفة الأشراف: 18206)، مسند احمد (6/314)، سنن الدارمی/الطلاق 11 (2325) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سلیمان بن یسار سے روایت ہے، ابوہریرہ، ابن عباس (رضی الله عنہم) اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو اور شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنا ہو آپس میں بات چیت کی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو عدت بعد میں پوری ہو اس کا وہ لحاظ و شمار کرے گی، ابوسلمہ نے کہا: نہیں وہ وضع حمل کے ساتھ ہی (دوسرے کے لیے) حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ان کا ہم خیال ہوں)، پھر ان لوگوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے تھوڑے ہی دنوں بعد بچہ جنا پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3541 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے کچھ دنوں بعد بچہ جنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اپنی پسند کے شخص سے) شادی کر لینے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3541 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے درمیان اس عورت (کی عدت) کے بارے میں اختلاف ہو گیا جو اپنے شوہر کے انتقال کے چند ہی راتوں بعد بچہ جنے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس عدت کی مدت زیادہ ہو گی اس پر عمل کرے گی اور ابوسلمہ نے کہا: جب بچہ پیدا ہو جائے گا تو وہ حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی (وہاں) پہنچ گئے (اور باتوں میں شریک ہو گئے) انہوں نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ساتھ ہوں (یعنی میری بھی وہی رائے ہے جو ابوسلمہ کی ہے) پھر ان سبھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کو (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا وہ پوچھ کر ان لوگوں کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ وہ کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے چند راتوں بعد بچہ جنا پھر اس نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ نے فرمایا: ”تو حلال ہو چکی ہے (جس سے بھی تو شادی کرنا چاہے کر سکتی ہے)“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 41ش35 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم (سب) ساتھ میں تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب عورت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنے گی تو وہ عورت دونوں عدتوں میں سے وہ عدت گزارے گی جس کی مدت بعد میں ختم ہوتی ہو۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: ہم نے ام سلمہ (ام المؤمنین) رضی اللہ عنہا سے یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے ان کے پاس کریب کو بھیجا، وہ ہمارے پاس ان کے پاس سے یہ خبر لے کر آئے کہ سبیعہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا، ان کے انتقال چند دنوں بعد سبیعہ کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3541 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سن کر مجھے خبر دی کہ قبیلہ اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی اور حاملہ تھی (اسی دوران) شوہر کا انتقال ہو گیا تو ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ نے اسے شادی کا پیغام دیا جسے اس نے ٹھکرا دیا، اس نے اس سے کہا: تیرے لیے درست نہیں ہے کہ دونوں عدتوں میں سے آخری مدت کی عدت پوری کئے بغیر شادی کرے۔ پھر وہ تقریباً بیس راتیں ٹھہری رہی کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ (اس کے بعد) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی (اور آپ سے اسی بارے میں مسئلہ پوچھا اور صورت حال بتائی) آپ نے فرمایا: ”تو (جس سے چاہے) نکاح کر لے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 39 (3518)، (تحفة الأشراف: 18273) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھے، اتنے میں ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی: وہ حمل سے تھی کہ اسی دوران اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اسے مرے ہوئے قریب چار مہینے ہوئے تھے کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا (اس کی عدت کیا ہو گی؟)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس کی مدت لمبی ہو گی وہی تمہاری عدت ہو گی، (یہ سن کر) ابوسلمہ نے کہا: مجھے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: اس کا شوہر انتقال کر گیا، اس وقت وہ حاملہ تھی پھر اس نے قریب چار مہینے پر بچہ جنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کر لینے کا حکم دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں اس مسئلہ میں گواہ ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15693) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گویا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو گئی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے باپ عبداللہ (عبداللہ بن عتبہ) نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو خط لکھ کر حکم دیا کہ تم سبیعہ اسلمی بنت حارث رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان کا قصہ معلوم کرو اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کیا فرمایا تھا جس وقت انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، عمر بن عبداللہ نے (سبیعہ اسلمی سے ملاقات کر کے) عبیداللہ بن عتبہ کو باخبر کرتے ہوئے لکھا: سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں اور وہ (سعد) بنو عامر بن لوئی کے قبیلے سے تھے اور بدری بھی تھے، ان کا انتقال حجۃ الوداع میں ہوا اور اس وقت وہ حاملہ تھیں اور ان کی وفات کے بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب و زینت کے ساتھ رہنے لگیں)، ان کے پاس قبیلہ بنو عبدالدار کے ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے کہا: کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھتا ہوں، لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو؟ قسم اللہ کی! تم اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم چار مہینے دس دن عدت کے پوری نہ کر لو۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں نے اپنے کپڑے لپیٹے و سمیٹے (اور اوڑھ پہن کر اور سلیقے سے ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ ”جس وقت میں نے بچہ جنا ہے اسی وقت سے میں حلال ہو چکی ہوں اور مجھے حکم دیا کہ میں شادی کر لوں اگر میرا جی چاہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 10 (3991) تعلیقًا، الطلاق 39 (5319)، صحیح مسلم/الطلاق 8 (1484)، سنن ابی داود/الطلاق 47 (2306)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2027)، (تحفة الأشراف: 15890)، مسند احمد (6/432)، ویأتي برقم: 3549، 3550 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
زفر بن اوس بن حدثان نصری بیان کرتے ہیں کہ ابوسنابل بن بعکک بن سباق رضی اللہ عنہ نے سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم (نکاح کے لیے) حلال نہ ہو گی جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے لمبی مدت والی عدت کے چار ماہ دس دن تم پر گزر نہ جائیں، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھا، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فتویٰ دیا کہ جب وہ بچہ جن چکی ہے تو نکاح کر لے، وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جب ان کے شوہر سعد کا انتقال ہوا تو ان کے حمل کا نوواں مہینہ چل رہا تھا، وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا، چنانچہ بچہ جننے کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے شادی کر لی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا؟ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہو گیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابوالسنابل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہیں زیب و زینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں: جب میں نے ابوالسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”تم تو اسی وقت سے حلال ہو گئی ہو جب تم نے بچہ جنا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3548 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کر سکتی ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول «حتیٰ تضع» کے معنی اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے)، (اس بات پر) ابن ابی لیلیٰ نے کہا: لیکن ان کے (یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا: کیا میں جرات کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورۃ (بقرہ) کے بعد اتری ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیرسورة البقرة 41 (4532)، تفسیرسورة الطلاق1 (4910) تعلیقًا، (تحفة الأشراف: 9544) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ عدت چار ماہ دس دن کی عدت سے مستثنیٰ اور الگ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا: جو کوئی مجھ سے مباہلہ کرنا چاہے میں اس سے اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں (کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے) کیونکہ وضع حمل کی مدت سے متعلق آیت «متوفی عنہا زوجہا» والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے جس کا شوہر مر گیا ہو جب وہ بچہ جن دے گی حلال ہو جائے گی۔ اس روایت کے الفاظ میمون کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9442)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 47 (2307)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2030) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نسائی (یعنی طلاق) کی چھوٹی سورۃ البقرہ کی (بڑی) سورۃ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9184) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|