كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 29. بَابُ: خِيَارِ الأَمَةِ باب: آزادی پانے والی لونڈی کو اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے“، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟“ (تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہو گا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو)“ ۳؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ النکاح 19 (5097)، الطلاق 24 (5279)، العتق 10 (2536)، الأطعمة 31 (5430)، الفرائض20 (6754)، 22 (6757)، 23 (6759)، م /الزکاة 52 (1075)، العتق 2 (1504)، (تحفة الأشراف: 17449) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفرائض 12 (2915)، سنن الترمذی/البیوع 33 (1256)، والولاء 1 (2125)، موطا امام مالک/الطلاق 10 (25)، مسند احمد (6/178) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ۲؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔ ۳؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”(ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہو گا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے“، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 52 (1075)، العتق 2 (1504)، (تحفة الأشراف: 17528)، مسند احمد (6/45)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2336، 2337) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور ہدیہ قبول کرنا ہمارے لیے جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|