سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
56. بَابُ : عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
باب: حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3550
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ: أَنِ ادْخُلْ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَاسْأَلْهَا عَمَّا أَفْتَاهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَمْلِهَا، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَوَلَدَتْ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، دَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَرَآهَا مُتَجَمِّلَةً، فَقَالَ: لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ النِّكَاحَ قَبْلَ أَنْ تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ حَلَلْتِ حِينَ وَضَعْتِ حَمْلَكِ".
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا؟ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہو گیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابوالسنابل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہیں زیب و زینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں: جب میں نے ابوالسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”تم تو اسی وقت سے حلال ہو گئی ہو جب تم نے بچہ جنا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3548 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کر سکتی ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3550 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3550
اردو حاشہ:
حضرت سعد بن خولہ مہاجر تھے مگر حجۃ الوداع میں مکہ مکرمہ ہی میں فوت ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے اس پر اظہار افسوس بھی فرمایا تھا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3550
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3548
´حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے باپ عبداللہ (عبداللہ بن عتبہ) نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو خط لکھ کر حکم دیا کہ تم سبیعہ اسلمی بنت حارث رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان کا قصہ معلوم کرو اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کیا فرمایا تھا جس وقت انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، عمر بن عبداللہ نے (سبیعہ اسلمی سے ملاقات کر کے) عبیداللہ بن عتبہ کو باخبر کرتے ہوئے لکھا: سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3548]
اردو حاشہ:
”جب تو نے بچہ نجا“ گویا وضع حمل (بچہ پیدا ہونے) سے عدت پوری ہوجاتی ہے لیکن چونکہ عموماً نفاس کی حالت میں نکاح نہیں کیا جاتا‘ اس لیے بعض روایات میں ہے کہ ”جب تو پاک ہوجائے…الخ“ ورنہ نفاس عدت میں شامل نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3548
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2028
´حاملہ عورت کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت بچہ جننے کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد اس سے شادی جائز ہے۔`
مسروق اور عمرو بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو خط لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ان کا کیا معاملہ تھا؟ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو جواب لکھا کہ ان کے شوہر کی وفات کے پچیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر وہ خیر یعنی شوہر کی تلاش میں متحرک ہوئیں، تو ان کے پاس ابوسنابل بن بعکک گزرے تو انہوں نے کہا کہ تم نے جلدی کر دی، دونوں میعادوں میں سے آخری میعاد چار ماہ دس دن عدت گزارو، یہ سن کر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2028]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح کی تیاری کا مطلب یہ ہے کہ عدت کا سادہ لباس اتارکر اچھا لباس پہن لیا اور زیب و زینت کی۔
(2)
دعائے مغفرت کی درخواست کا مطلب یہ تھا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے کہ وقت سے پہلے عدت کی پابندیاں توڑ بیٹھی ہوں۔
نبی ﷺ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ عدت ختم ہوچکی ہے، لہٰذا تم نے کوئی غلطی نہیں کی، پریشان نہ ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2028
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3722
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جا کر، ان سے پوچھو کہ تمہارا واقعہ کیا ہے اور جب تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا جواب دیا تھا۔ تو عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسے بتایا کہ وہ سعد بن خولہ جو بنو عامر بن لؤی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3722]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَمْ تَنْشَبْ:
اس پر زیادہ مدت نہ گزری،
یعنی تھوڑے ہی عرصہ کے بعد۔
(2)
فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا:
جب وہ ولادت کے خون سے پاک ہوگئی،
نفاس بند ہوگیا۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابو سنابل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سبیعہ اسلمیہ کو منگنی کا پیغام دیا تھا اور ان کے بعد ابو بشر بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغام دیا۔
جو حضرت ابو سنابل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جوان تھا۔
اس لیے انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ وہ اس کی طرف مائل ہوگی اور اس کا ولی بھی موجود نہیں تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے،
ولی مجھے ترجیح دے گا۔
اس لیے کہنے لگے تم ابھی شادی نہیں کر سکتی ہو،
لیکن مسئلہ یہ ہےجس پر آئمہ اربعہ کا اتفاق ہے اورجمہور صحابہ و تابعین کا یہی نظریہ ہے کہ جب عورت خاوند کی وفات کے وقت یا طلاق کے وقت حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔
چاہے حمل چند دن کے بعد وضع ہو جائے یا نو دس ماہ کے بعد لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا موقف یہ تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو بھی بعد میں ہو،
اس کا لحاظ رکھنا ہوگا۔
مثلاً اگر وضع حمل پانچ ماہ کے بعد ہوتو اس کا اعتبار ہوگا اور اگر چار ماہ دس دن سے پہلے وضع حمل ہو جائے۔
تو چار ماہ دس دن کا اعتبار ہوگا۔
اس طرح جمہور فقہاء کے نزدیک بچہ جننے کے بعد ولادت کے خون کے دوران ہی عورت شادی کر سکتی ہے۔
ہاں خاوند صحبت خون سے پاک ہونے کے بعد کر سکے گا۔
لیکن حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ،
شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ،
نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفاس سے پاک ہونے کے بعد شادی کر سکے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3722