كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 48. بَابُ: إِلْحَاقِ الْوَلَدِ بِالْفِرَاشِ إِذَا لَمْ يَنْفِهِ صَاحِبُ الْفِرَاشِ باب: شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہو گی بچہ اسی کا مانا جائے گا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 17 (6750)، والحدود 23 (6818)، صحیح مسلم/الرضاع 10 (1458)، سنن الترمذی/الرضاع 8 (1157)، سنن ابن ماجہ/النکاح 59 (2006)، (تحفة الأشراف: 13134)، مسند احمد (2/239، 208)، سنن الدارمی/النکاح 41 (2281) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے و قانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا، یعنی اس کے لیے بالکل یہ محرومی ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکا فراش والے (یعنی شوہر) کا ہے اور زنا کار کے لیے پتھر ہے (یعنی اسے مار لگے گی یا پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 10 (1458)، (تحفة الأشراف: 13282)، مسند احمد (2/280) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سر پرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو ۱؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 3 (2053)، 100 (2218)، الخصومات 6 (2421)، العتق 8 (2533)، الوصایا 4 (2745) المغازي 53 (4303)، الفرائض 18 (4349)، 28 (6765)، الحدود 23 (6817)، الأحکام 29 (7182)، صحیح مسلم/الرضاع 10 (1457)، (تحفة الأشراف: 16584)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 34 (2273)، سنن ابن ماجہ/النکاح 59 (2004)، موطا امام مالک/الأقضیة 21 (2281)، مسند احمد (6/129، 200، 273، 247)، سنن الدارمی/النکاح 41 (2282) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چنانچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہو گیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المؤمنین سودہ (سودہ بنت زمعہ) رضی اللہ عنہا نے کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے ۱؎ اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5293)، مسند احمد (4/5) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہو گی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکا فراش والے کا ہے ۱؎ اور زنا کرنے والے کو پتھر ملیں گے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9294) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: بیوی اور لونڈی جس سے مرد کی صحبت جائز ہے اسے فراش (بچھونا) کہا گیا ہے، تو بچھونا جس کا ہو گا یعنی عورت یا لونڈی جس کی ہو گی لڑکا بھی اس کا کہا یا مانا جائے گا۔ ۲؎: یعنی غیر شادی شدہ ہو گا تو کوڑے لگیں گے جو پتھر کی مار کی طرح تکلیف دہ ہیں اور شادی شدہ ہو گا تو (فی الواقع) پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|