كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 34. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْخُلْعِ باب: خلع کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے شوہروں سے بلا عذر کے خلع اور طلاق مانگنے والیاں منافق عورتیں ہیں“ ۲؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے ابوہریرہ کے سوا کسی اور سے نہیں سنی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: حسن بصری نے (یہ حدیث ہی کیا) ابوہریرہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 12256)، مسند احمد (2/414) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «خلع» کچھ مال دے کر بیوی اپنے شوہر سے جدائی اور علیحدگی اختیار کر لے اسے «خلع» کہتے ہیں۔ وضاحت ۲؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو منافق بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں کہ جنت میں دخول اولیٰ کا مستحق نہیں قرار پائیں گی، کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزار و فرمانبردار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
حبیبہ بنت سہل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) صبح صادق میں نکلے تو ان کو اپنے دروازے پر تاریکی میں کھڑا ہوا پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کون ہے یہ؟“ تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے، کیسے آنا ہوا؟“ انہوں نے کہا: نہ میں اور نہ ثابت بن قیس (یعنی دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، آپ ہم میں علیحدگی کرا دیجئیے) پھر جب ثابت بن قیس بھی آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ حبیبہ بنت سہل ہیں، اللہ کو ان سے جو کہلانا تھا وہ انہوں نے کہا“ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے (وہ یہ لے سکتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا: ”وہ ان سے لے لو (اور ان کو چھوڑ دو)“ تو انہوں نے ان سے لے لیا اور وہ (وہاں سے آ کر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 18 (2227)، (تحفة الأشراف: 15792)، موطا امام مالک/ الطلاق 11 (31)، سنن الدارمی/الطلاق 7 (2317) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی و کوتاہی کا الزام نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر و ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟“ (وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا: ”اپنا باغ لے لو اور انہیں ایک طلاق دے دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 12 (5273)، (تحفة الأشراف: 6052)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 18 (2229)، سنن الترمذی/الطلاق 10 (1185) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ہو سکتا ہے میرے انہیں ناپسند کرنے کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی و کوتاہی، نافرمانی و ناشکری ہو جائے اور میں گناہ گار ہو جاؤں، اس لیے میں ان سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎ آپ نے فرمایا: چاہو تو طلاق دے دو، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح4 (2049)، (تحفة الأشراف: 6161) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی، آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو“۔ اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو اسے رہنے دو“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے، اس کا متصل ہونا غلط ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3231 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|