سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
5. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مَعْمَرٍ فِيهِ
باب: اس حدیث میں معمر پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2109
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: عُدْنَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ فَتَذَاكَرْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ , فَقَالَ: مَا تَذْكُرُونَ، قُلْنَا: شَهْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، وَيُنَادِي مُنَادٍ كُلَّ لَيْلَةٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ هَلُمَّ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ.
عرفجہ کہتے ہیں کہ ہم نے عتبہ بن فرقد کی عیادت کی تو ہم نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے پوچھا: تم لوگ کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: ماہ رمضان کا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور ہر رات منادی آواز لگاتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار! خیر کے کام میں لگ جا ۱؎، اور اے شر (برائی) کے طلب گار! برائی سے باز آ جا“ ۲؎۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9758)، مسند احمد 4/311، 312، 5/411 (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہی اس کا وقت ہے کیونکہ اس وقت معمولی عمل پر بہت زیادہ ثواب دیا جاتا ہے۔ ۲؎: اور توبہ کر لے کیونکہ یہی توبہ کا وقت ہے۔ ۳؎: غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ عرفجہ نے اسے عتبہ بن فرقد رضی الله عنہ کی روایت بنا دیا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی اور صحابی سے مروی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2109 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2109
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں خطا ہے۔ سفیان بن عیینہ کا اسے عطاء بن سائب، عن عرفجۃ، عن عتبۃ بن فرقد کے طریق سے بیان کرنا درست نہیں کیونکہ اس طرح یہ روایت عتبہ بن فرقد کی سند سے شمار ہوگی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی یہ روایت عرفجۃ عن عتبۃ کے بجائے عرفجۃ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اصْحَابِ النَّبِیِّ چاہیے کہ عرفجہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتا ہے۔
(2) ”اعلان کرتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ کے حسب ہدایت ہوتا ہے اور فرشتے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے سننے، نہ سننے سے اس اعلان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سچے نبیﷺ نے بتلا دیا تو ہر مومن کو یہ اعلان اپنے دل کے کانوں سے سننا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2109