كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: اسلامی اخلاق و آداب 61. باب مَا جَاءَ فِي فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي باب: ”میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں“ کہنے کا بیان۔
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 80 (2905)، والمغازي 18 (4058، 4059)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 51 (2411)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 77 (190-194)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (129)، وانظر رقم 2830 (تحفة الأشراف: 10116) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی «فداک ابی امی» ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“ ایسا سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا، سعد کے لیے استعمال سے ثابت ہوا کہ اور کسی کے لیے بھی یہ جملہ کہا جا سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (130)
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد اور اپنی ماں کو سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے سوا کسی کے لیے جمع نہیں کیا۔ جنگ احد میں آپ نے ان سے کہا: ”تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں“، اور آپ نے ان سے یہ بھی کہا: ”اے بہادر قوی جوان! تیر چلاتے جاؤ“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث علی سے متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے، ۳- اس حدیث کو متعدد لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے سعید بن مسیب سے، سعید بن مسیب نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو یکجا کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ”تیر چلائے جاؤ، تم پر ہمارے ماں باپ قربان ہوں“، ۴- اس باب میں زبیر اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، اور ان کی روایت میں ”الغلام الحزور“ کا لفظ صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث صحیح کے متابعات و شواہد صحیحین میں موجود ہیں)»
قال الشيخ الألباني: منكر بذكر الغلام الحزور // سيأتي (783 / 4019) //
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی لڑائی کے دن میرے لیے «فداك أبي وأمي» کہہ کر اپنے ماں باپ کو یکجا کر دیا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 15 (3725)، والمغازي 18 (405
5- 4057)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 51 (2412)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (130) (تحفة الأشراف: 3857) (صحیح)» قال الشيخ الألباني: صحيح
|