Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
15. باب فِي رَدِّ الإِرْجَاءِ
باب: ارجاء کی تردید کا بیان۔
حدیث نمبر: 4679
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:" مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَلَا دِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ شَهَادَةُ رَجُلٍ، وَأَمَّا نُقْصَانُ الدِّينِ: فَإِنَّ إِحْدَاكُنَّ تُفْطِرُ رَمَضَانَ وَتُقِيمُ أَيَّامًا لَا تُصَلِّي".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا (ایک عورت) نے کہا: عقل اور دین میں کیا نقص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، اور دین کا نقص یہ ہے کہ (حیض و نفاس میں) تم میں کوئی نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 34 (79)، سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4003)، (تحفة الأشراف: 7261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: چونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اس مدت میں نماز و روزے کے ترک سے ایمان میں نقص ثابت ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (79)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4679 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4679  
فوائد ومسائل:
1: عورت کا نمازاورروزے چھوڑدینا اگرچہ شرعی،معقول ومقبول عذرہے مگر مجموعی لحاظ سے اس کے اعمال بندگی پر اس کا اثر بھی ضرورمرتب ہوتا ہے کہ کجا ایک مردبلا توقف مسلسل عمل کرتا رہتا ہے جب عورت کے اعمال میں تسلسل نہیں رہتا اور یہی اس کے نقصان دین اور مرد کے کمال دین کی علامت ہے۔

2: نبی ؐ نے عورت کی گواہی کو آدھی گواہی اس لیے قراردیا ہے کہ ان کی یادداشت اور حافظہ کمزورہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا: (أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى) ایک عورت اگر بھول جائے تو ان میں سے دوسری اسے یاد دلائے بھول جانا ہی ان کا نقصان عقل ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا تجدد پسند چاہے، انکار کرتے رہیں، لیکن ان کے آقایان مغرب کے بہت سے مفکرین نے بھی اس کو تسلیم کیا اور اس کا برملا اظہار کیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4679   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4003  
´عورتوں کا فتنہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کی جماعت! تم صدقہ و خیرات کرو، کثرت سے استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں تم عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے، ان میں سے ایک سمجھ دار عورت نے سوال کیا: اللہ کے رسول ہمارے جہنم میں زیادہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعنت و ملامت زیادہ کرتی ہو، اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے باوجود اس کے کہ تم ناقص العقل اور ناقص الدین ہو، تم سے زیادہ مرد کی عقل کو مغلوب اور پسپا کر دینے والا کسی کو نہیں دیکھا، اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4003]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
استغفار اور صدقے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔

(2)
  نبی اکرم ﷺ کو جنت اور جہنم میں مشاہدہ کرایا گیا اس لیے آپ نے اس بارے میں جو فرمایا چشم دید فرمایا۔
ہمارا فرض ہے کہ اس پر ایمان رکھیں۔

(3)
عقل میں ناقص ہونے سے مراد یہ ہے کہ عورتوں پر فطرتاً جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے عورت کو جو بچے کی پرورش کا فریضہ سونپا ہے اس کے لیے جذبات کا یہ غلبہ ضروری ہےتاہم اجتماعی معاملات کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہاں جذباتی فیصلے مفید نہیں ہوتے۔

(4)
دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گوہی کے برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر کی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے، گواہی وغیرہ کے معاملات اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
عورت کی گواہی کی ضرورت صرف خاص حالات میں پڑتی ہے یعنی جب موقع پر دو مرد موجود نہ ہوں جو گواہ بن سکیں۔
اسلامی نظام و معاشرے کے مجموعی خدوخال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی قانون بہتر ہے۔

(5)
۔
عورت ایام حیض میں نماز نہیں پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔
اس کی یہ فطری کمزوری اس کا قصور نہیں یہ ایسے ہی ہے جس طرح ایک کمزور بدن والا مسلمان بہت سی وہ نیکیاں انجام نہیں دے سکتا جو طاقتور جسم والا مسلمان انجام دے سکتا ہے اس لحاظ سے طاقتور بہتر اور افضل ہے لیکن اس میں کمزور مسلمان قصوروار نہیں۔

(6)
مرد عورت کی محبت کی وجہ سے بعض اوقات ایسا مطالبہ تسلیم کرلیتا ہے جو وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بہتر نہیں۔
اگر اس میں کوئی بڑا دنیاوی نقصان یا کوئی دینی نقصان نہ ہو تو تسلیم کرلینا جائز ہےتاکہ گھر آباد رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4003