كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ زہد اور رقت انگیز باتیں The Book of Zuhd and Softening of Hearts 1ق. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ باب: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں۔ Chapter: …. حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن جعفر ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بالسوق داخلا من بعض العالية، والناس كنفته فمر بجدي اسك ميت، فتناوله فاخذ باذنه، ثم قال: " ايكم يحب ان هذا له بدرهم "، فقالوا: ما نحب انه لنا بشيء، وما نصنع به، قال: " اتحبون انه لكم؟ "، قالوا: والله لو كان حيا كان عيبا فيه لانه اسك، فكيف وهو ميت؟، فقال: " فوالله للدنيا اهون على الله من هذا عليكم "،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ، وَالنَّاسُ كَنَفَتَهُ فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ "، فَقَالُوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ، قَالَ: " أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟ "، قَالُوا: وَاللَّهِ لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا فِيهِ لِأَنَّهُ أَسَكُّ، فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ؟، فَقَالَ: " فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ "، سلیمان بن بلال نے جعفر سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، لوگ آپ کے پہلو میں (آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے، آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا، پھر فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟"توانھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں، ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا: " (پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟"انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا، کیونکہ (ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے (بھلانہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے،لوگ آپ کے پہلو میں(آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے،آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا،پھر فرمایا:تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟"توانھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا:ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں،ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا:"(پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟"انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی:اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا،کیونکہ(ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے(بھلانہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابراہیم بن محمد بن عروہ سامی نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے جعفر (صادق) سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد (محمد باقر) سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی البتہ ثقفی کی روایت میں ہے: (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:) اگریہ زندہ ہوتاتب بھی حقیر سے کانوں والا ہونا اس کاعیب تھا۔ امام صاحب دو اور اساتذہ سے یہی حدیث اس فرق سے بیان کرتے ہیں،(سوگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی یہ بوچاپن اس کے لیے عیب ونقص ہوتا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن مطرف ، عن ابيه ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرا الهاكم التكاثر قال: يقول ابن آدم: " مالي مالي، قال: وهل لك يابن آدم من مالك إلا ما اكلت، فافنيت او لبست، فابليت او تصدقت، فامضيت "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: " مَالِي مَالِي، قَالَ: وَهَلْ لَكَ يَابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ، فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ، فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ، فَأَمْضَيْتَ "، ہمام (بن یحییٰ بن دینار) نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قتادہ نے مطرف سے، انھوں نے اپنے والد (حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ (سورت) أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُتلاوت فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔"فرمایا"آدم علیہ السلام کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا، یا پہن کر پُرانا کردیا، یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔" مطرف رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ(حضرت عبداللہ بن شخیر رحمۃ اللہ علیہ) سے بیان کرتے ہیں،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ(سورت) أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُتلاوت فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ابن آدم کہتا ہے میرا مال،میرا مال۔"فرمایا"آدم ؑ کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا،یا پہن کر پُرانا کردیا،یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ، سعید (بن ابی عروبہ) اور ہشام سب نے قتادہ سے، انھوں نے مطرف سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ (آگے) ہمام کی حدیث کے مانند بیان کیا۔ امام صاحب اپنے تین اوراساتذہ سے مذکورہ بالاحدیث بیان کرتے ہیں اور اس میں "اَتَيتُ" کی جگہ"اِنتَهيتُ"(آپ تک پہنچا)ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني سويد بن سعيد ، حدثني حفص بن ميسرة ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يقول العبد مالي مالي، إنما له من ماله ثلاث ما اكل، فافنى او لبس فابلى او اعطى، فاقتنى وما سوى ذلك، فهو ذاهب وتاركه للناس "،حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ مَا أَكَلَ، فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى، فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ، فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ "، حفص بن میسرو نے علاء (بن عبدالرحمان) سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃء رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال اس لیے تو اس کے مال سے صر ف تین چیزیں ہیں۔جو اس نے کھایا اور فنا کردیا، جو پہنا اور بوسیدہ کردیا، یاجو کسی کو دےکر آخرت کے لیے) ذخیرہ کرلیا۔اس کے سوا جو کچھ بھی ہے تو وہ (بندہ جانے والا اور اس (مال) کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ کہتا ہے میرا مال،میرا مال اس لیے تو اس کے مال سے صر ف تین چیزیں ہیں۔جو اس نے کھایا اور فنا کردیا،جو پہنا اور بوسیدہ کردیا،یاجو کسی کو دےکر آخرت کے لیے)ذخیرہ کرلیا۔اس کے سوا جو کچھ بھی ہے تو وہ(بندہ جانے والا اور اس (مال) کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر نے کہا مجھے علاء بن عبدالرحمان نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند بیان کیا۔ امام صاحب نے یہی روایت ایک اور استاد سے سنی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن ابی بکر نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میت کے پیچھے تین چیزیں ہوتی ہیں ان میں سے دو لوٹ آتی ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتی ہے اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کا عمل اس کے پیچھے رہ جا تے ہیں، گھر والے اور مال لوٹ آ تے ہیں اور عمل ساتھ رہ جاتا ہے۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میت کے پیچھے تین چیزیں ہوتی ہیں ان میں سے دو لوٹ آتی ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتی ہے اس کے گھر والے،اس کا مال اور اس کا عمل اس کے پیچھے رہ جا تے ہیں،گھر والے اور مال لوٹ آ تے ہیں اور عمل ساتھ رہ جاتا ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني حرملة بن يحيى بن عبد الله يعني ابن حرملة بن عمران التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان عمرو بن عوف وهو حليف بني عامر بن لؤي، وكان شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا عبيدة بن الجراح إلى البحرين ياتي بجزيتها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو صالح اهل البحرين وامر عليهم العلاء بن الحضرمي، فقدم ابو عبيدة بمال من البحرين، فسمعت الانصار بقدوم ابي عبيدة، فوافوا صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف، فتعرضوا له فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم، ثم قال: " اظنكم سمعتم ان ابا عبيدة قدم بشيء من البحرين؟، فقالوا: اجل يا رسول الله، قال: " فابشروا واملوا ما يسركم، فوالله ما الفقر اخشى عليكم، ولكني اخشى عليكم ان تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم، فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما اهلكتهم "،حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيَّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ؟، فَقَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ "، یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ عمرو بن عوف جو بنی عامر کے حلیف تھے، انھوں نے جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی، انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جذیہ لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل بحرین سے صلح کی تھی اور علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا تھا، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے آئے، انصار نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی، واپس ہوئے تو وہ (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرادیئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا خیال ہے کہ تم لوگوں نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں؟انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بجا فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"خوش ہوجاؤ اور اس کی اُمید رکھو جس سے تمھیں خوشی ہوگی۔اللہ کی قسم! مجھےتم پرفقر کا خوف نہیں (کہ تمھیں اس سے نقصان پہنچےگا) لیکن مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ دنیا اسی طرح تم پر کشادہ کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی۔پھر تم اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جس طرح ان لوگوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا اور یہ تمھیں بھی تباہ کردےگی جس طرح اس نے ان کو تباہ کردیا تھا۔"؎ حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بنی عامربن لوی کے حلیف تھے،انھوں نے جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی،انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جذیہ لے آئیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل بحرین سے صلح کی تھی اور علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا تھا،حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے آئے،انصار نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی،واپس ہوئے تو وہ(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرادیئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرا خیال ہے کہ تم لوگوں نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں؟انھوں نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بجا فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"خوش ہوجاؤ اور اس کی اُمید رکھو جس سے تمھیں خوشی ہوگی۔اللہ کی قسم! مجھےتم پرفقر کا خوف نہیں(کہ تمھیں اس سے نقصان پہنچےگا) لیکن مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ دنیا اسی طرح تم پر کشادہ کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی۔پھر تم اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جس طرح ان لوگوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا اور یہ تمھیں بھی تباہ کردےگی جس طرح اس نے ان کو تباہ کردیا تھا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صالح اور شعیب دونوں نے زہری سے یونس کی سند کے ساتھ اس کی حدیث کے مانند روایت کی، مگر صالح کی حدیث میں ہے: "اور یہ تمھیں بھی اس طرح لبھائے گی (دنیا میں مگن اور آخرت سے غافل کردے گی) جس طرح اس نے ان کو لبھایا تھا۔" صالح اور شعیب دونوں نے زہری سے یونس کی سند کے ساتھ اس کی حدیث کے مانند روایت کی،مگر صالح کی حدیث میں ہے:"اور یہ تمھیں بھی اس طرح لبھائے گی (دنیا میں مگن اور آخرت سے غافل کردے گی) جس طرح اس نے ان کو لبھایا تھا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مولی یزید بن ابوفراس رباح نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جب روم اور فارس فتح ہوجائیں گے تو تم کس طرح کی قوم ہوگے؟"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا، ہم وہی بات کریں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"یا اس کے برعکس تم (دنیا کے معاملے میں) ایک دوسرے سے مقابلہ کروگے، پھر ایک د وسرے کے حسد کرنے لگوگے، پھر ایک دوسرے سے منہ موڑ لوگے پھر ایک دوسرے سے بغض میں مبتلا ہوجاؤ گے۔پھرمسلمین مہاجرین کے ہاں جاؤگے اور ان میں سے کچھ کو (حاکم بنا کر) دوسروں کی گردنوں پر مسلط کردو گے۔" حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، کہ آپ نے فرمایا:"جب روم اور فارس فتح ہوجائیں گے تو تم کس طرح کی قوم ہوگے؟"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،ہم وہی بات کریں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"یا اس کے برعکس تم(دنیا کے معاملے میں) ایک دوسرے سے مقابلہ کروگے،پھر ایک د وسرے کے حسد کرنے لگوگے،پھر ایک دوسرے سے منہ موڑ لوگے پھر ایک دوسرے سے بغض میں مبتلا ہوجاؤ گے۔پھرمسلمین مہاجرین کے ہاں جاؤگے اور ان میں سے کچھ کو(حاکم بنا کر) دوسروں کی گردنوں پر مسلط کردو گے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو زناد نے اعرج سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص اس کی طرف دیکھے جسے مال اور جمال میں فضیلت حاصل ہے تو اس کو بھی دیکھے جو اس سے کمتر ہے، جس پر (خود) اسے فضیلت حاصل ہے۔" حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی شخص اس کی طرف دیکھے جسے مال اور جمال میں فضیلت حاصل ہے تو اس کو بھی دیکھے جو اس سے کمتر ہے،جس پر(خود) اسے فضیلت حاصل ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے ہمام بن منبہ سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، بالکل ابو زناد کی حدیث کے مانند۔ امام صاحب کو ایک اور استاد نے یہی حدیث،اسی طرح سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
جریر، ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انھوں نے ابو صالح سے اورانھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی طرف دیکھو جو (مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے، یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔" ابو معاویہ نےکہا: " (وہ نعمت) جو تم پر کی گئی۔" حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا همام ، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، حدثني عبد الرحمن بن ابي عمرة ، ان ابا هريرة حدثه انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن ثلاثة في بني إسرائيل ابرص، واقرع، واعمى، فاراد الله ان يبتليهم، فبعث إليهم ملكا، فاتى الابرص، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: لون حسن، وجلد حسن، ويذهب عني الذي قد قذرني الناس، قال: فمسحه، فذهب عنه قذره واعطي لونا حسنا وجلدا حسنا، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: الإبل او قال: البقر شك إسحاق إلا ان الابرص او الاقرع، قال احدهما: الإبل وقال الآخر: البقر، قال: فاعطي ناقة عشراء، فقال: بارك الله لك فيها، قال: فاتى الاقرع، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: شعر حسن، ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب عنه واعطي شعرا حسنا، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: البقر، فاعطي بقرة حاملا، فقال: بارك الله لك فيها، قال: فاتى الاعمى، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: ان يرد الله إلي بصري فابصر به الناس، قال: فمسحه فرد الله إليه بصره، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: الغنم، فاعطي شاة والدا، فانتج هذان وولد هذا، قال: فكان لهذا واد من الإبل، ولهذا واد من البقر، ولهذا واد من الغنم، قال: ثم إنه اتى الابرص في صورته وهيئته، فقال رجل مسكين: قد انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا، اتبلغ عليه في سفري؟، فقال: الحقوق كثيرة، فقال له: كاني اعرفك، الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا، فاعطاك الله، فقال: إنما ورثت هذا المال كابرا، عن كابر، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت، قال: واتى الاقرع في صورته، فقال له مثل ما قال لهذا، ورد عليه مثل ما رد على هذا، فقال: إن كنت كاذبا، فصيرك الله إلى ما كنت، قال: واتى الاعمى في صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة، اتبلغ بها في سفري؟، فقال: قد كنت اعمى فرد الله إلي بصري، فخذ ما شئت ودع ما شئت، فوالله لا اجهدك اليوم شيئا اخذته لله، فقال: امسك مالك، فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ، فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْإِبِلُ أَوَ قَالَ: الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَاقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ: الْبَقَرُ، قَالَ: فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْبَقَرُ، فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْغَنَمُ، فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، قَالَ: فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ: قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا، فَأَعْطَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا، عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً، أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ ". اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نےکہا: مجھے عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے حدیث بیان کی، انھیں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے)۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے)۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعباس بن عبد العظيم ، واللفظ لإسحاق، قال عباس: حدثنا، وقال إسحاق: اخبرنا ابو بكر الحنفي ، حدثنا بكير بن مسمار ، حدثني عامر بن سعد ، قال: كان سعد بن ابي وقاص في إبله، فجاءه ابنه عمر، فلما رآه سعد، قال: اعوذ بالله من شر هذا الراكب، فنزل، فقال له: انزلت في إبلك وغنمك وتركت الناس يتنازعون الملك بينهم، فضرب سعد في صدره، فقال اسكت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ ، وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، قَالَ عَبَّاسٌ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فِي إِبِلِهِ، فَجَاءَهُ ابْنُهُ عُمَرُ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لَهُ: أَنَزَلْتَ فِي إِبِلِكَ وَغَنَمِكَ وَتَرَكْتَ النَّاسَ يَتَنَازَعُونَ الْمُلْكَ بَيْنَهُمْ، فَضَرَبَ سَعْدٌ فِي صَدْرِهِ، فَقَالَ اسْكُتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ ". بکیر بن مسمار نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے کہ ان کےبیٹےعمر (بن سعد) ان کے پاس آئے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا: میں اس سوار کے شرسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ اترے اور ان (حضرت سعد رضی اللہ عنہ) سے کہا: آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ سلطنت کے بارے میں باہم لڑرہے ہیں (آپ کبھی اپناحصہ مانگیں) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا: خاموش رہو!میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے، "اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام (گوشہ نشیں) ہو۔ عامر رحمۃ اللہ علیہ بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے کہ ان کےبیٹےعمر(بن سعد)ان کے پاس آئے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا: میں اس سوار کے شرسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ اترے اور ان(حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے کہا:آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ سلطنت کے بارے میں باہم لڑرہے ہیں (آپ کبھی اپناحصہ مانگیں) حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا:خاموش رہو!میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے،"اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام(گوشہ نشیں)ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر عبد اللہ بن نمیر اور ابن بشر نے کہا: ہمیں اسماعیل بن قیس نے حدیث سنائی، کہا: میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم!میں عربوں میں سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیرچلایاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس طرح جنگیں لڑتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کو خاردار درخت کے پتوں اور اس کیکر (کےپتوں) کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔یہاں تک کہ قم میں سے کوئی بکری کی مینگنیوں کی طرح پاخانہ کرتا تھا پھر اب بنو اسد کے لوگ دین کے معاملے میں میری تادیب کرنے لگےہیں! (اگر اب میں دین سے اس قدر نابلد ہو گیا ہوں) تب تو میں بالکل ناکام ہو گیا اور میرےعمل ضائع ہو گئے۔اور ابن نمیر نے اپنی روایت میں "تب تو"نہیں کہا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:اللہ کی قسم!میں عربوں میں سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیرچلایاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس طرح جنگیں لڑتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کو خاردار درخت کے پتوں اور اس کیکر (کےپتوں)کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔یہاں تک کہ قم میں سے کوئی بکری کی مینگنیوں کی طرح پاخانہ کرتا تھا پھر اب بنو اسد کے لوگ دین کے معاملے میں میری تادیب کرنے لگےہیں!(اگر اب میں دین سے اس قدر نابلد ہو گیا ہوں) تب تو میں بالکل ناکام ہو گیا اور میرےعمل ضائع ہو گئے۔اور ابن نمیر کی روایت میں،"خِبتُ" میں ناکام ہوگیا،کے بعد"اذا" کالفظ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نے اسماعیل بن ابی خالد سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: یہاں تک کہ ہم سے ایک بکرے کی (مینگنیوں کی) طرح کا پاخانہ کرتا تھا جس میں اور کچھ (کسی اور کھانے کا کوئی حصہ جو اسے پاخانہ کی شکل سے) ملا ہوا نہیں ہو تا تھا۔ امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے،حتیٰ کہ ہم سے کوئی پاخانہ کرتاتو بکری کی مینگنی کی طرح کرتا،جس میں کسی چیز کی آمیزش نہ ہوتی،یعنی جس طرح وہ خشک اور الگ الگ ہوتی ہیں،یہی کیفیت ہماری قضائے حاجت کی ہوتی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، عن خالد بن عمير العدوي ، قال: خطبنا عتبة بن غزوان ، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " اما بعد، فإن الدنيا قد آذنت بصرم، وولت حذاء ولم يبق منها إلا صبابة كصبابة الإناء يتصابها صاحبها، وإنكم منتقلون منها إلى دار لا زوال لها، فانتقلوا بخير ما بحضرتكم، فإنه قد ذكر لنا ان الحجر يلقى من شفة جهنم فيهوي فيها سبعين عاما لا يدرك لها قعرا، ووالله لتملان افعجبتم ولقد ذكر لنا ان ما بين مصراعين من مصاريع الجنة مسيرة اربعين سنة، ولياتين عليها يوم وهو كظيظ من الزحام، ولقد رايتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام إلا ورق الشجر حتى قرحت اشداقنا، فالتقطت بردة فشققتها بيني وبين سعد بن مالك، فاتزرت بنصفها واتزر سعد بنصفها، فما اصبح اليوم منا احد إلا اصبح اميرا على مصر من الامصار، وإني اعوذ بالله ان اكون في نفسي عظيما وعند الله صغيرا، وإنها لم تكن نبوة قط إلا تناسخت حتى يكون آخر عاقبتها ملكا، فستخبرون وتجربون الامراء بعدنا "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ آذَنَتْ بِصَرْمٍ، وَوَلَّتْ حَذَّاءَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ يَتَصَابُّهَا صَاحِبُهَا، وَإِنَّكُمْ مُنْتَقِلُونَ مِنْهَا إِلَى دَارٍ لَا زَوَالَ لَهَا، فَانْتَقِلُوا بِخَيْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ قَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ يُلْقَى مِنْ شَفَةِ جَهَنَّمَ فَيَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا لَا يُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا، وَوَاللَّهِ لَتُمْلَأَنَّ أَفَعَجِبْتُمْ وَلَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ مَسِيرَةُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَيْهَا يَوْمٌ وَهُوَ كَظِيظٌ مِنَ الزِّحَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا، فَالْتَقَطْتُ بُرْدَةً فَشَقَقْتُهَا بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَاتَّزَرْتُ بِنِصْفِهَا وَاتَّزَرَ سَعْدٌ بِنِصْفِهَا، فَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا أَصْبَحَ أَمِيرًا عَلَى مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ، وَإِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ فِي نَفْسِي عَظِيمًا وَعِنْدَ اللَّهِ صَغِيرًا، وَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَنَاسَخَتْ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَاقِبَتِهَا مُلْكًا، فَسَتَخْبُرُونَ وَتُجَرِّبُونَ الْأُمَرَاءَ بَعْدَنَا "، شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حمید بن بلال نے خالد بن عمیر عدوی سے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ایک دن (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرہ کےعامل) حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر کہا: حمدو ثنا کے بعد بے شک یہ دنیا خاتمے کے قریب ہو گئی ہے اور اس (کی مہلت) میں سے تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے جس طرح برتن کے آخری قطرےہوتے ہیں جنھیں برتن والا انڈیل رہا ہوتا ہے اور تم اس دنیا سے اس گھر کی طرف منتقل ہو رہے ہو جس پر زوال نہیں آئے گا۔جو تمھارے پاس ہے اس میں سے بہتر ین متاع کے ساتھ آگے جاؤ۔کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جاتا ہے تو وہ وہ سترسال گرتا رہتا ہے۔اس کی تہ تک نہیں پہنچتا۔اور اللہ کی قسم!یہ (جہنم) پوری طرح بھر جائے گی۔کیا تمھیں اس پر تعجب ہے؟اور ہمیں بتا یا گیا کہ جنت کے کواٹروں میں سے دو کواٹروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور اس پر ایک دن آئے گا جب وہ ازدحام کے سبب تنگ پڑجائے گا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں میں تھا ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔میں نے ایک چادر اٹھائی تو اسے اپنے اور سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کرلیا آدھی میں نے کمر پر باندھی اور آدھی سعد رضی اللہ عنہ نے اب ہم میں سے ہر کوئی شہروں میں سے کسی شہر کا امیر بن گیا ہے۔میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہو جاؤں اور کبھی کوئی نبوت نہیں تھی۔مگر ختم ہو گئی۔یہاں تک کہ اس کا پچھلا حصہ بادشاہت میں بدل گیا۔ جلد ہی تمھیں (اس کا) پتہ چل جائے گا اور ہمارےبعد کے امیروں کا (بھی تم لوگ خود) تجربہ کر لو گے۔ خالد بن عمیر عدوی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،:ایک دن حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر کہا: حمدو ثنا کے بعد بے شک یہ دنیا خاتمے کے قریب ہو گئی ہے اور اس (کی مہلت) میں سے تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے جس طرح برتن کے آخری قطرےہوتے ہیں جنھیں برتن والا انڈیل رہا ہوتا ہے اور تم اس دنیا سے اس گھر کی طرف منتقل ہو رہے ہو جس پر زوال نہیں آئے گا۔جو تمھارے پاس ہے اس میں سے بہتر ین متاع کے ساتھ آگے جاؤ۔کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جاتا ہے تو وہ وہ سترسال گرتا رہتا ہے۔اس کی تہ تک نہیں پہنچتا۔اور اللہ کی قسم!یہ(جہنم)پوری طرح بھر جائے گی۔کیا تمھیں اس پر تعجب ہے؟اور ہمیں بتا یا گیا کہ جنت کے کواٹروں میں سے دو کواٹروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور اس پر ایک دن آئے گا جب وہ ازدحام کے سبب تنگ پڑجائے گا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں میں تھا ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کو ئی چیز نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔میں نے ایک چادر اٹھائی تو اسے اپنے اور سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کرلیا آدھی میں نے کمر پر باندھی اور آدھی سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اب ہم میں سے ہر کوئی شہروں میں سے کسی شہر کا امیر بن گیا ہے۔میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہو جاؤں اور کبھی کوئی نبوت نہیں تھی۔مگر ختم ہو گئی۔یہاں تک کہ اس کا پچھلا حصہ بادشاہت میں بدل گیا۔ جلد ہی تمھیں (اس کا) پتہ چل جائے گا اور ہمارےبعد کے امیروں کا (بھی تم لوگ خود) تجربہ کر لو گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسحٰق بن عمر بن سلیط نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں حمید بن بلال نے خالد بن عمیر سے جنھوں نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا روایت کی کہا: حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا وہ اس وقت بصرہ کے امیرتھے۔ (آگے) شیبان کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ خالد بن عمیر،جنھوں نے جاہلیت کا دور پایا ہے،بیان کرتے ہیں،حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطاب کیا،جبکہ وہ بصرہ کے گورنرتھے،آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قرہ بن خالد نے حمید بلال سے اور انھوں نے خالد بن عمیر سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، میں نے دیکھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں شخص تھا خاردار درختوں کے پتوں کے سوا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔ خالد بن عمیر بیان کرتے ہیں،میں نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا،میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سات ساتھیوں میں ساتواں فرددیکھا،ہمارا کھانا صرف حبلہ درخت کے پتے تھے،حتی کہ ہماری باچھیں چھل گئیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟، قال: " هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟، قالوا: لا، قال: " فهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة؟ "، قالوا: لا، قال: " فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم، إلا كما تضارون في رؤية احدهما "، قال: " فيلقى العبد، فيقول: اي فل، الم اكرمك، واسودك، وازوجك، واسخر لك الخيل والإبل، واذرك تراس وتربع؟، فيقول: بلى، قال: فيقول: افظننت انك ملاقي؟، فيقول: لا، فيقول: فإني انساك كما نسيتني ثم يلقى الثاني، فيقول اي فل: الم اكرمك، واسودك، وازوجك واسخر لك الخيل والإبل، واذرك تراس وتربع؟، فيقول: بلى اي رب، فيقول: افظننت انك ملاقي؟، فيقول: لا، فيقول: فإني انساك كما نسيتني، ثم يلقى الثالث، فيقول له: مثل ذلك، فيقول: يا رب آمنت بك وبكتابك وبرسلك، وصليت وصمت وتصدقت، ويثني بخير ما استطاع، فيقول: هاهنا إذا قال، ثم يقال له: الآن نبعث شاهدنا عليك، ويتفكر في نفسه من ذا الذي يشهد علي، فيختم على فيه، ويقال لفخذه ولحمه وعظامه انطقي، فتنطق فخذه ولحمه وعظامه بعمله، وذلك ليعذر من نفسه، وذلك المنافق، وذلك الذي يسخط الله عليه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، قَالَ: " هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ "، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا "، قَالَ: " فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ، أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ثُمَّ يَلْقَى الثَّانِيَ، فَيَقُولُ أَيْ فُلْ: أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى أَيْ رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي، ثُمَّ يَلْقَى الثَّالِثَ، فَيَقُولُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ آمَنْتُ بِكَ وَبِكِتَابِكَ وَبِرُسُلِكَ، وَصَلَّيْتُ وَصُمْتُ وَتَصَدَّقْتُ، وَيُثْنِي بِخَيْرٍ مَا اسْتَطَاعَ، فَيَقُولُ: هَاهُنَا إِذًا قَالَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ، فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَلَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ، وَذَلِكَ الَّذِي يَسْخَطُ اللَّهُ عَلَيْهِ ". حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: "چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: " مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا: "وہ (رب) بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں! (بالکل ایسا ہی تھا۔) تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی) تعریف کرے گا، چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ (اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ) اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،صحابہ کرام(رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے پوچھا،اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:نہیں آپ نے فرمایا:"چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا:" مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا:"وہ(رب)بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں!(بالکل ایسا ہی تھا۔)تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا۔اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی)تعریف کرے گا،چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ(اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ)اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن النضر بن ابي النضر ، حدثني ابو النضر هاشم بن القاسم ، حدثنا عبيد الله الاشجعي ، عن سفيان الثوري ، عن عبيد المكتب ، عن فضيل ، عن الشعبي ، عن انس بن مالك ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فضحك، فقال:" هل تدرون مم اضحك؟، قال: قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: من مخاطبة العبد ربه، يقول يا رب: الم تجرني من الظلم؟، قال: يقول: بلى، قال: فيقول: فإني لا اجيز على نفسي إلا شاهدا مني، قال: فيقول: كفى بنفسك اليوم عليك شهيدا، وبالكرام الكاتبين شهودا، قال: فيختم على فيه، فيقال لاركانه انطقي، قال: فتنطق باعماله، قال: ثم يخلى بينه وبين الكلام، قال: فيقول: بعدا لكن وسحقا، فعنكن كنت اناضل".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدٍ الْمُكْتِبِ ، عَنْ فُضَيْلٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟، قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، يَقُولُ يَا رَبِّ: أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ؟، قَالَ: يَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِنِّي، قَالَ: فَيَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا، قَالَ: فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِي، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ، قَالَ: فَيَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ". حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (بیٹھے ہوئے) تھے کہ آپ ہنس پڑے پھر آپ نے پوچھا: " کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہو ں؟"ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔آپ نے فرمایا: "مجھے بندے کی اپنے رب کے ساتھ کی کئی بات پر ہنسی آتی ہے وہ کہے گا۔اے میرے رب!کیا تونے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: وہ فرمائے گا۔کیوں نہیں!فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی (کی گواہی) کو جائز قرار نہیں دیتا۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہواور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی۔اور اس کے (اپنے) اعضاء سے کہا جائے گا۔بولو، فرمایا: تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور (اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور (اس کے اعضاء کے) بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا۔فرمایا: تو (ان کی گواہی سن کر) وہ کہے گا دورہوجاؤ، میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ) لڑا کرتا تھا۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے،توآپ ہنسے اور فرمایا:"کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہو ں؟"ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔آپ نے فرمایا:"مجھے بندے کی اپنے رب کے ساتھ کی کئی بات پر ہنسی آتی ہے وہ کہے گا۔اے میرے رب!کیا تونے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:وہ فرمائے گا۔کیوں نہیں!فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی (کی گواہی) کو جائز قرار نہیں دیتا۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہواور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی۔اور اس کے اعضاء وارکان(جوارح) سے کہا جائے گا ہر عضو(اپنے عمل کےبارے میں) بولے،تووہ اس کے عملوں کی گواہی دیں گے،پھر اس کو کلام کرنے کے لیے چھوڑدیاجائےگا،تو وہ کہے گا،تمہارے لیے دوری اور تباہی ہو،تمہاری طرف سے تو میں دفاع کررہا تھا،"یعنی تمہیں ہی آگ سے بچانے کی کوشش کررہا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو زرعہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ!محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروالوں کے رزق کو زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی،"اے اللہ!آل محمد کا رزق بقدرکفایت کردے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ عمروناقد زہیر بن حرب اور ابو کریب نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے عمار ہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ!آل محمد کا رزق زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے۔" اور عمرو کی روایت میں ہے: "اے اللہ! (آل محمدکو زندگی برقرار رکھنے جتنا) رزق دے۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدعافرمائی،"اے اللہ!آل محمد(خاندان محمد) کارزق بقدر کفایت فرما۔"اور عمرو کی روایت میں "اللهم ارزُق"ہے،یعنی "اِجعَل" کی جگہ"اُرزُق"ہے،مقصد ایک ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو اسامہ نے کہا: میں نے اعمش سے سنا انھوں نے عمارہ بن قعقاع سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: "بقدرکفایت (کردے۔) امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں،اس میں قوت کی جگہ کفاف بقدر گزران ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
منصور نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جب سے آپ مدینہ آئے آپ کی وفات تک کبھی تین راتیں مسلسل گندم کی روٹی سیرہو کرنہیں کھائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے،جب سے آپ مدینہ تشریف لائے ہیں،کبھی مسلسل تین ر اتیں گندم کی خوراک وغذا سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: رسول اللہ نے کبھی متواتر تین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اپنی راہ پر روانہ ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متواتر تین دن گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ فوت ہوگئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد الرحمان بن یزید نے ہمیں اسود سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نےکہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کبھی دودن متواتر جوکی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کنبہ(بیوی بچے)متواتر دو دن،جو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرلی گئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عابس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے تین دن سے زیادہ کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھا ئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان،تین دن سے زائد گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حفص بن غیاث نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھو ں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کبھی تین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی کھائی یہاں تک کہ آپ اپنی راہ پر روانہ ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں،آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن بھی گندم کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا،حتی کہ آپ نے اپنی راہ لی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
بلال بن حمید نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مسلسل دو دن گندم کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھا ئی مگر دو دنوں میں سے ایک دن کھجورہوتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کنبہ دودن بھی گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوا،مگران میں ایک دن کھجوریں تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن یمان نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے اورانھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک اس حالت میں رہتے تھے کہ آگ نہیں جلاتے تھے بس کھجوراور پانی پر گزرہوتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،یقیناً ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ،مہینہ گزرجاتا اور ہم اپنے گھروں میں چولہا نہ جلاتے،بس صرف کھجوروں اور پانی پر گزارا ہوتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ اور ابن نمیر نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، ہم لوگ اسی حالت میں رہتے تھے۔اورانھوں نے "آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم " کا ذکر نہیں کیا۔اور ابو کریب نے ابن نمیر سے مروی اپنی حدیث میں مزید کہا:: الایہ کہ ہمارے پاس (کہیں سے) تھوڑا سا گوشت آجاتا۔ امام صاحب دو اور اساتذہ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں،اس میں"اِن كُنَا لَنَمكُث"،ہم ٹھہرتے تھے،ہےدرمیان میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں ہوا اور ابوکریب،ابن نمیر سے یہ اضافہ بیان کرتے ہیں،الا یہ کہ کہیں سے تھوڑا ساگوشت ہمیں مل جاتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور میرے طاقچےمیں کسی جگر رکھنے والے (ذی روح) کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کےسواکچھ نہ تھا میں اس میں سے (پکا کر) کھاتی رہی یہاں تک کہ بہت دن گزرگئے (ایک دن) میں نے ان کو ماپ لیاتو وہ ختم ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئےاور میرے طاقچےمیں کسی جگر رکھنے والے(ذی روح) کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کےسواکچھ نہ تھا میں اس میں سے(پکا کر) کھاتی رہی یہاں تک کہ بہت دن گزرگئے (ایک دن)میں نے ان کو ماپ لیاتو وہ ختم ہوگئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيى بن يحيى ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن يزيد بن رومان ، عن عروة ، عن عائشة ، انها كانت تقول " والله يا ابن اختي إن كنا لننظر إلى الهلال، ثم الهلال، ثم الهلال ثلاثة اهلة في شهرين، وما اوقد في ابيات رسول الله صلى الله عليه وسلم نار، قال: قلت يا خالة: فما كان يعيشكم؟، قالت الاسودان: التمر والماء، إلا انه قد كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم جيران من الانصار، وكانت لهم منائح، فكانوا يرسلون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من البانها فيسقيناه ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ " وَاللَّهِ يَا ابْنَ أُخْتِي إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ، ثُمَّ الْهِلَالِ، ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ، قَالَ: قُلْتُ يَا خَالَةُ: فَمَا كَانَ يُعَيِّشُكُمْ؟، قَالَتِ الْأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَكَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، فَكَانُوا يُرْسِلُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهَا فَيَسْقِينَاهُ ". یزید بن رومان نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ آپ بتایا کرتی تھیں: اللہ کی قسم! میرے بھانجے!ہم ایک دفعہ پہلی کا چاند دیکھتے پھر (اگلے مہینے) پہلی کا چاند دیکھتے دومہینوں میں تین دفعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں میں چولہا نہ جلا ہو تا۔ (عروہ نے) کہا: میں نے پوچھا خالہ تو آپ کی گزران کے لیے کون سی چیز ہوتی؟انھوں نے کہا: وہ کالی چیزیں کھجور اور پانی البتہ انصار میں سے کچھ (گھرانے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے اور انھیں دودھ دینے والی اونٹیناں ملی ہوئی تھیں۔وہ ان کے دودھ میں سے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں پلادیتے تھے۔ حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی تھیں:اللہ کی قسم! میرے بھانجے!ہم ایک دفعہ پہلی کا چاند دیکھتے پھر (اگلے مہینے)پہلی کا چاند دیکھتے دومہینوں میں تین دفعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں میں چولہا نہ جلا ہو تا۔(عروہ نے)کہا:میں نے پوچھا خالہ تو آپ کی گزران کے لیے کون سی چیز ہوتی؟انھوں نے کہا: وہ کالی چیزیں کھجور اور پانی البتہ انصار میں سے کچھ (گھرانے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے اور انھیں دودھ دینے والی اونٹیناں ملی ہوئی تھیں۔وہ ان کے دودھ میں سے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں پلادیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عروہ بن زبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئےاور آپ کبھی ایک دن میں دوبار روٹی اور زیتون کے تیل سے سیر نہیں ہو ئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور آپ نے ایک دن میں دو دفعہ پیٹ بھرکر روٹی اور زیتون نہیں کھایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
داؤد بن عبد الرحمٰن عطاء نے ہمیں خبر دی کہا: مجھے منصور بن عبد الرحمٰن یحییٰ نے اپنی والدہ صفیہ سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: جب لوگ دو سیاہ چیزیں کھجور اور پانی سے سیر ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فوت ہوئے جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پیٹ بھر کردو سیاہ چیزیں،کھجوریں اور پانی میسر تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد الرحمٰن (بن مہدی) نے ہمیں سفیان (ثوری) سے حدیث بیان کی، انھوں نے منصور بن صفیہ سے انھوں نے اپنی والدہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہو گئی اور ہم دو سیاہ چیزوں پانی اور کھجورسے سیر ہونے لگے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،جبکہ ہمیں پیٹ بھرنے کے لیے دو سیاہ چیزیں،پانی اورکھجوریں دستیاب تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(عبید اللہ بن عبد الرحمٰن) اشجعی اور ابو احمد دونوں نے سفیان سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی مگر ان دونوں کی سفیان سے مروی حدیث میں ہے۔ (آپ تشریف لے گئے) جبکہ (ابھی) ہم دوسیاہ چیزیں (پانی اور کھجور) بھی پیٹ بھر کے نہیں کھاتے تھے۔ امام صاحب دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم دو سیاہ چیزوں سے بھی سیر نہیں ہوئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن عباد اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں مروان فزاری نے یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو حازم سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جبکہ ابن عباد نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے!۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے گھروالوں کو تین لگاتار گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھلائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے!ابن عباد کی روایت میں ہے،ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان جس کے ہاتھ میں ہے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے اہل کو متواتر تین دن پیٹ بھر گندم کی روٹی نہیں کھلائی،حتی کہ دنیا چھوڑگئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے ہمیں یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی، انھوں نےکہا: مجھے حازم نے حدیث بیان کی کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کئی بار دیکھا وہ انگلی سے اشارہ کرتے تھے کہتے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے!اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھروالوں نے کبھی لگاتار تین دن گندم کی روٹی سیر ہوکر نہیں کھائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابوحازم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بار بار انگلی کا اشارہ کرتے دیکھا وہ کہہ رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والےمسلسل تین دن گندم کی روٹی سےسیر نہیں ہوئے حتی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑدیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتیبہ بن سعید اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابو احوص نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: کیا تم لوگوں کو اپنی مرضی کا کھانا اور پینا میسر نہیں؟میں نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ کے پاس روٹی کھجور بھی اتنی نہیں ہو تی تھی جس سے آپ اپنا پیٹ بھر لیں۔اور قتیبہ نےبہ (جس سے) کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے،کیا تم اپنی مرضی کاکھاتے پیتے نہیں ہو؟میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات سے گزرتے دیکھ چکا ہوں کہ آپ کو سیر ہونے کے لیے(پیٹ بھرنے کے لیے)روی کھجوریں بھی میسر نہ تھیں۔قتیبہ نے "يَملابه" کے بعد نہیں کہا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زہیر اور اسرائیل دونوں نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مطابق حدیث بیان کی اور زہیر کی حدیث میں مزید ہے اور تم کھجوروں اور مکھن کی کئی قسموں کے بغیر راضی نہیں ہوتے۔ امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں اور زبیر کی روایت میں یہ اضافہ ہے اور تم رنگ برنگ کھجوروں اور مکھن کے بغیر مطمئن ہی نہیں ہوتے ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں نے دنیا میں سے کیا کچھ حاصل کر لیاہے۔پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ پورا دن بھوک لوٹتے تھے اور آپ کو سوکھی ہوئی اتنی سخت کھجور بھی میسر نہ ہوتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے۔ سماک بن حرب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،میں نے نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ میں یہ بیان کرتے سنا،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں نے جس قدر دنیا حاصل کرلی ہے،اس کاذکر کرکے فرمایا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر بھوک سے پیچ وتاب کھاتے دیکھا،آپ کو پیٹ بھرنے کے لیے ردی کھجوریں بھی دستیاب نہ تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو ہانی نے ابو عبد الرحمٰن کو کہتے ہوئے سنا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا ان سے کسی آدمی نے پوچھا تھا کیا: ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کیا تمھاری بیوی ہے جس کے پاس تم آرام کرنے کے لیے جاتے ہو۔"اس نے کہا: ہاں پوچھا: کیا تمھارے پاس رہائش گاہ ہےجہاں تم رہتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس تو خادم (بھی) ہے کہا: پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو۔ ابو عبد الرحمٰن حُبلی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ان سے کسی آدمی نے پوچھا تھا کیا:ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا:کیا تمھاری بیوی ہے جس کے پاس تم آرام کرنے کے لیے جاتے ہو۔"اس نے کہا:ہاں پوچھا:کیا تمھارے پاس رہائش گاہ ہےجہاں تم رہتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس تو خادم (بھی) ہے کہا: پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو۔(جن کو یہ سہولت میسر ہوتی ہے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(حديث موقوف) قال ابو عبد الرحمن : وجاء ثلاثة نفر إلى عبد الله بن عمرو بن العاص ، وانا عنده، فقالوا يا ابا محمد: إنا والله ما نقدر على شيء، لا نفقة، ولا دابة، ولا متاع، فقال لهم: ما شئتم إن شئتم رجعتم إلينا، فاعطيناكم ما يسر الله لكم، وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان، وإن شئتم صبرتم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة إلى الجنة باربعين خريفا "، قالوا: فإنا نصبر لا نسال شيئا.(حديث موقوف) قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالُوا يَا أَبَا مُحَمَّدٍ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، لَا نَفَقَةٍ، وَلَا دَابَّةٍ، وَلَا مَتَاعٍ، فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا، فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا "، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا. ابو عبد الرحمان نے کہا: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے: ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان (وہ لوگ واقعتاًفقیر تھے) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔ (وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا) اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔ ابو عبد الرحمان بیان کرتےہیں:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے:ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔(وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا)اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|