حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن مطرف ، عن ابيه ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرا الهاكم التكاثر قال: يقول ابن آدم: " مالي مالي، قال: وهل لك يابن آدم من مالك إلا ما اكلت، فافنيت او لبست، فابليت او تصدقت، فامضيت "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: " مَالِي مَالِي، قَالَ: وَهَلْ لَكَ يَابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ، فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ، فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ، فَأَمْضَيْتَ "،
ہمام (بن یحییٰ بن دینار) نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قتادہ نے مطرف سے، انھوں نے اپنے والد (حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ (سورت) أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُتلاوت فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔"فرمایا"آدم علیہ السلام کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا، یا پہن کر پُرانا کردیا، یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔"
مطرف رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ(حضرت عبداللہ بن شخیر رحمۃ اللہ علیہ) سے بیان کرتے ہیں،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ(سورت) أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُتلاوت فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ابن آدم کہتا ہے میرا مال،میرا مال۔"فرمایا"آدم ؑ کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا،یا پہن کر پُرانا کردیا،یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔"
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7420
� تشریح: اور جو رکھ چھوڑا وہ تیرا مال نہیں ہے بلکہ تیرے وارثوں کا ہے یا اگر وارث نہیں تو الفتوں کا ہے۔ افسوس ہے کہ انسان مال کمائے اتنی محنت کرے مشقت اٹھائے اور مزے دوسرے اڑائیں لازم ہے کہ آپ خوب کھائے، پیئے، پہنے اور اللہ کی راہ میں دے دوستوں اور عزیزوں کو کھلائے اس پر بھی جو کچھ بچ رہے وہ اگر وارث لے لیں تو خیر۔
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7420
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7420
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، انسان کے لیے حقیقتا اور واقعتا کام آنے والا مال وہی ہے، جو اس نے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اور جو مال دنیا میں کھانے پینے یا پہننے کی ضروریات یا اس قسم کی اور دنیوی ضروریات میں خرچ کیا، اس کا نفع محدود اور عارضی ہے، یہیں ختم ہو جائے گا، ابدی اور دائمی زندگی میں کام نہیں آئے گا۔