شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حمید بن بلال نے خالد بن عمیر عدوی سے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ایک دن (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرہ کےعامل) حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر کہا: حمدو ثنا کے بعد بے شک یہ دنیا خاتمے کے قریب ہو گئی ہے اور اس (کی مہلت) میں سے تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے جس طرح برتن کے آخری قطرےہوتے ہیں جنھیں برتن والا انڈیل رہا ہوتا ہے اور تم اس دنیا سے اس گھر کی طرف منتقل ہو رہے ہو جس پر زوال نہیں آئے گا۔جو تمھارے پاس ہے اس میں سے بہتر ین متاع کے ساتھ آگے جاؤ۔کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جاتا ہے تو وہ وہ سترسال گرتا رہتا ہے۔اس کی تہ تک نہیں پہنچتا۔اور اللہ کی قسم!یہ (جہنم) پوری طرح بھر جائے گی۔کیا تمھیں اس پر تعجب ہے؟اور ہمیں بتا یا گیا کہ جنت کے کواٹروں میں سے دو کواٹروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور اس پر ایک دن آئے گا جب وہ ازدحام کے سبب تنگ پڑجائے گا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں میں تھا ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔میں نے ایک چادر اٹھائی تو اسے اپنے اور سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کرلیا آدھی میں نے کمر پر باندھی اور آدھی سعد رضی اللہ عنہ نے اب ہم میں سے ہر کوئی شہروں میں سے کسی شہر کا امیر بن گیا ہے۔میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہو جاؤں اور کبھی کوئی نبوت نہیں تھی۔مگر ختم ہو گئی۔یہاں تک کہ اس کا پچھلا حصہ بادشاہت میں بدل گیا۔ جلد ہی تمھیں (اس کا) پتہ چل جائے گا اور ہمارےبعد کے امیروں کا (بھی تم لوگ خود) تجربہ کر لو گے۔
خالد بن عمیر عدوی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،:ایک دن حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر کہا: حمدو ثنا کے بعد بے شک یہ دنیا خاتمے کے قریب ہو گئی ہے اور اس (کی مہلت) میں سے تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے جس طرح برتن کے آخری قطرےہوتے ہیں جنھیں برتن والا انڈیل رہا ہوتا ہے اور تم اس دنیا سے اس گھر کی طرف منتقل ہو رہے ہو جس پر زوال نہیں آئے گا۔جو تمھارے پاس ہے اس میں سے بہتر ین متاع کے ساتھ آگے جاؤ۔کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جاتا ہے تو وہ وہ سترسال گرتا رہتا ہے۔اس کی تہ تک نہیں پہنچتا۔اور اللہ کی قسم!یہ(جہنم)پوری طرح بھر جائے گی۔کیا تمھیں اس پر تعجب ہے؟اور ہمیں بتا یا گیا کہ جنت کے کواٹروں میں سے دو کواٹروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور اس پر ایک دن آئے گا جب وہ ازدحام کے سبب تنگ پڑجائے گا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں میں تھا ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کو ئی چیز نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔میں نے ایک چادر اٹھائی تو اسے اپنے اور سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کرلیا آدھی میں نے کمر پر باندھی اور آدھی سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اب ہم میں سے ہر کوئی شہروں میں سے کسی شہر کا امیر بن گیا ہے۔میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہو جاؤں اور کبھی کوئی نبوت نہیں تھی۔مگر ختم ہو گئی۔یہاں تک کہ اس کا پچھلا حصہ بادشاہت میں بدل گیا۔ جلد ہی تمھیں (اس کا) پتہ چل جائے گا اور ہمارےبعد کے امیروں کا (بھی تم لوگ خود) تجربہ کر لو گے۔