كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ زہد اور رقت انگیز باتیں The Book of Zuhd and Softening of Hearts 19. باب فِي حَدِيثِ الْهِجْرَةِ وَيُقَالُ لَهُ حَدِيثُ الرَّحْلِ: باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی حدیث۔ Chapter: …. حدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، قال: سمعت البراء بن عازب ، يقول: جاء ابو بكر الصديق إلى ابي في منزله، فاشترى منه رحلا، فقال لعازب: ابعث معي ابنك يحمله معي إلى منزلي، فقال لي ابي: احمله فحملته وخرج ابي معه ينتقد ثمنه، فقال له ابي " يا ابا بكر حدثني كيف صنعتما ليلة سريت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم اسرينا ليلتنا كلها حتى قام قائم الظهيرة، وخلا الطريق، فلا يمر فيه احد حتى رفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تات عليه الشمس بعد، فنزلنا عندها، فاتيت الصخرة، فسويت بيدي مكانا ينام فيه النبي صلى الله عليه وسلم في ظلها ثم بسطت عليه فروة، ثم قلت: نم يا رسول الله، وانا انفض لك ما حولك، فنام وخرجت انفض ما حوله، فإذا انا براعي غنم مقبل بغنمه إلى الصخرة يريد منها الذي اردنا، فلقيته، فقلت: لمن انت يا غلام؟، فقال: لرجل من اهل المدينة، قلت: افي غنمك لبن، قال: نعم، قلت: افتحلب لي، قال: نعم، فاخذ شاة، فقلت له: انفض الضرع من الشعر والتراب والقذى، قال: فرايت البراء يضرب بيده على الاخرى ينفض، فحلب لي في قعب معه كثبة من لبن، قال: ومعي إداوة ارتوي فيها للنبي صلى الله عليه وسلم ليشرب منها ويتوضا، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم وكرهت ان اوقظه من نومه، فوافقته استيقظ، فصببت على اللبن من الماء حتى برد اسفله، فقلت: يا رسول الله، اشرب من هذا اللبن، قال: فشرب حتى رضيت، ثم قال: الم يان للرحيل؟، قلت: بلى، قال: فارتحلنا بعدما زالت الشمس، واتبعنا سراقة بن مالك، قال: ونحن في جلد من الارض، فقلت: يا رسول الله، اتينا، فقال: لا تحزن إن الله معنا، فدعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارتطمت فرسه إلى بطنها ارى، فقال: إني قد علمت انكما قد دعوتما علي، فادعوا لي، فالله لكما ان ارد عنكما الطلب، فدعا الله، فنجا فرجع لا يلقى احدا إلا، قال: قد كفيتكم ما هاهنا، فلا يلقى احدا إلا رده، قال: ووفى لنا "،حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، يَقُولُ: جَاءَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ، فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا، فَقَالَ لِعَازِبٍ: ابْعَثْ مَعِيَ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي إِلَى مَنْزِلِي، فَقَالَ لِي أَبِي: احْمِلْهُ فَحَمَلْتُهُ وَخَرَجَ أَبِي مَعَهُ يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي " يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا لَيْلَةَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا كُلَّهَا حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، وَخَلَا الطَّرِيقُ، فَلَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ حَتَّى رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ بَعْدُ، فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا، فَأَتَيْتُ الصَّخْرَةَ، فَسَوَّيْتُ بِيَدِي مَكَانًا يَنَامُ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّهَا ثُمَّ بَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً، ثُمَّ قُلْتُ: نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ، فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا، فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ؟، فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قُلْتُ: أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَفَتَحْلُبُ لِي، قَالَ: نَعَمْ، فَأَخَذَ شَاةً، فَقُلْتُ لَهُ: انْفُضْ الضَّرْعَ مِنَ الشَّعَرِ وَالتُّرَابِ وَالْقَذَى، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ، فَحَلَبَ لِي فِي قَعْبٍ مَعَهُ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، قَالَ: وَمَعِي إِدَاوَةٌ أَرْتَوِي فِيهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْرَبَ مِنْهَا وَيَتَوَضَّأَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ مِنْ نَوْمِهِ، فَوَافَقْتُهُ اسْتَيْقَظَ، فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ مِنَ الْمَاءِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْرَبْ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، قَالَ: فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ؟، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: وَنَحْنُ فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُتِينَا، فَقَالَ: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا، فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ، فَادْعُوَا لِي، فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ، فَدَعَا اللَّهَ، فَنَجَا فَرَجَعَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا، قَالَ: قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هَاهُنَا، فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ، قَالَ: وَوَفَى لَنَا "، ابو اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر (میرے والد) عازب رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں، وہ اس (کجاوے) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچادے۔میرے والد نے مجھ سے کہا: اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے۔میرے والد نے ان سے کہا: ابو بکر!مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟انھوں نے کہا: ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور (دھوپ کی شدت سے) راستہ خالی ہوگیا، اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا، اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی، اس کا سایہ بھی تھا، اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی۔ہم اس کے پاس (سواریوں سے) اتر گئے۔میں چٹان کے پاس آیا، ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سائے میں سوجائیں، پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھادی، پھر عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد (کے علاقے) کی تلاشی لیتا ہوں (اور نگہبانی کرتا ہوں) آ پ سو گئے، میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چنان کی طرف آرہاتھا۔وہ بھی اس کے پاس اسی طرح (آرام) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے۔میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا: لڑکے!تم کس کے (غلام) ہو؟اس نے کہا: مدینہ کے ایک شخص کا۔میں نے کہا: کیا تمھاری بکریوں (کے تھنوں) میں دودھ ہے؟اس نے کہا: ہاں۔میں نے کہا: کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟اس نے کہا: ہاں۔اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا: تھنوں سے بال، مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے، چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے) کہا: میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن (بھی) تھا، میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں، لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے۔میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا، یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیاتو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دودھ نوش فرمالیں۔آپ نے نوش فرمایا، یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا: "کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟"میں نے عرض کی: کیوں نہیں!کہا: پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روان ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا، جبکہ ہم ایک سخت زمین میں (چل رہے) تھے۔میں نے عرض کی: ہمیں لیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: "غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔میرا خیال ہے۔اس نے کہا: مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔میرے حق میں دعا کرو۔ (میری طرف سے) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا، پھر وہ لوٹ گیا۔جس (پچھاڑنے والے) کو ملتا اس سے یہ کہتا: میں (تلاش کرچکا ہوں) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں، وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا۔ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے) کہا: انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،:حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا،پھر(میرے والد) عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے:اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں،وہ اس(کجاوے) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچادے۔میرے والد نے مجھ سے کہا:اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے۔میرے والد نے ان سے کہا:ابو بکر!مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟انھوں نے کہا:ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور(دھوپ کی شدت سے)راستہ خالی ہوگیا،اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا،اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی،اس کا سایہ بھی تھا،اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی۔ہم اس کے پاس(سواریوں سے) اتر گئے۔میں چٹان کے پاس آیا،ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سائے میں سوجائیں،پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھادی،پھر عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد(کے علاقے) کی تلاشی لیتا ہوں (اور نگہبانی کرتا ہوں) آ پ سو گئے،میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چنان کی طرف آرہاتھا۔وہ بھی اس کے پاس اسی طرح(آرام) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے۔میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا:لڑکے!تم کس کے(غلام) ہو؟اس نے کہا:مدینہ کے ایک شخص کا۔میں نے کہا:کیا تمھاری بکریوں(کے تھنوں) میں دودھ ہے؟اس نے کہا:ہاں۔میں نے کہا:کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟اس نے کہا:ہاں۔اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا:تھنوں سے بال،مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔(ابو اسحاق نے) کہا:تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔(ابو اسحاق نے)کہا:میں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے،چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا(حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن(بھی) تھا،میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں،لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے۔میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا،یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیاتو میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دودھ نوش فرمالیں۔آپ نے نوش فرمایا،یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا:"کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟"میں نے عرض کی:کیوں نہیں!کہا:پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روان ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا،جبکہ ہم ایک سخت زمین میں(چل رہے) تھے۔میں نے عرض کی:ہمیں لیا گیا ہے،آپ نے فرمایا:"غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔میرا خیال ہے۔اس نے کہا:مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔میرے حق میں دعا کرو۔(میری طرف سے) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا،پھر وہ لوٹ گیا۔جس(پچھاڑنے والے) کو ملتا اس سے یہ کہتا:میں (تلاش کرچکا ہوں) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں،وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا۔(حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنيه زهير بن حرب ، حدثنا عثمان بن عمر . ح وحدثناه إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا النضر بن شميل كلاهما، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: اشترى ابو بكر من ابي رحلا بثلاثة عشر درهما، وساق الحديث بمعنى حديث زهير، عن ابي إسحاق، وقال في حديثه: من رواية عثمان بن عمر، فلما دنا دعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساخ فرسه في الارض إلى بطنه ووثب عنه، وقال يا محمد: قد علمت ان هذا عملك، فادع الله ان يخلصني مما انا فيه، ولك علي لاعمين على من ورائي، وهذه كنانتي، فخذ سهما منها، فإنك ستمر على إبلي وغلماني بمكان كذا وكذا، فخذ منها حاجتك، قال: لا حاجة لي في إبلك، فقدمنا المدينة ليلا، فتنازعوا ايهم ينزل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: انزل على بني النجار اخوال عبد المطلب اكرمهم بذلك، فصعد الرجال والنساء، فوق البيوت وتفرق الغلمان، والخدم في الطرق ينادون يا محمد يا رسول الله، يا محمد يا رسول الله.وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ . ح وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ كِلَاهُمَا، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ مِنْ أَبِي رَحْلًا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وقَالَ فِي حَدِيثِهِ: مِنْ رِوَايَةِ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ، فَلَمَّا دَنَا دَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَاخَ فَرَسُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى بَطْنِهِ وَوَثَبَ عَنْهُ، وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا عَمَلُكَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُخَلِّصَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ، وَلَكَ عَلَيَّ لَأُعَمِّيَنَّ عَلَى مَنْ وَرَائِي، وَهَذِهِ كِنَانَتِي، فَخُذْ سَهْمًا مِنْهَا، فَإِنَّكَ سَتَمُرُّ عَلَى إِبِلِي وَغِلْمَانِي بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَخُذْ مِنْهَا حَاجَتَكَ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِي إِبِلِكَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ لَيْلًا، فَتَنَازَعُوا أَيُّهُمْ يَنْزِلُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَنْزِلُ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُكْرِمُهُمْ بِذَلِكَ، فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ، فَوْقَ الْبُيُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ، وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. زہیر بن حرب نے مجھے یہی حدیث عثمان بن عمر سے بیان کی، نیز ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے یہی حدیث بیان کی، کہا: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی، ان دونوں (عثمان اور نضر) نے اسرائیل سے روایت کی، انھوں نے ابو اسحاق سے روایت کی، انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے میرے والد سے تیرہ درہم میں ایک کجاوا خریدا۔پھر زہیر کی ابو اسحاق سے روایت کردہ حدیث کے مانند حدیث بیان کی اور اپنی حدیث میں انھوں نے کہا: عثمان بن عمر کی روایت میں ہے، جب وہ (سراقہ رضی اللہ عنہ) قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف دعا کی، ان کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔وہ اچھل کر اس سے اترے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپ کا کا م ہے۔آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس مشکل سے، میں جس میں پھنس گیا ہوں، چھٹکارہ عطا کردے اور آپ کی طرف سے یہ بات میرے ذمے ہوئی کہ میرے پیچھے جو بھی (آپ کا تعاقب کررہا) ہے میں اس کی آنکھوں کو (آپ کی طرف) دیکھنے سے روک دوں گا اور یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر نکال لیں، آپ فلاں مقام پر میرے اونٹوں اور میرے غلاموں کے پاس سے گزریں گے، ان میں سے جس کی ضرورت ہو اسے لے لیں۔آپ نے فرمایا: "مجھے تمہارے اونٹوں کی ضرورت نہیں۔"چنانچہ ہم رات کے وقت مدینہ (کے قریب) پہنچے۔لوگوں نے اس کے بارے میں تنازع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کے ہاں اتریں گے (مہمان بنیں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں (اپنے د ادا) عبدالمطلب کے ننھیال بنو نجار کا مہمان بن کر ان کی عزت افزائی کروں گا۔"مرد، عورتیں گھروں کے اوپر چڑھ گئے اور غلام اور نوکر چاکر راستوں میں بکھر گئے۔وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (مرحبا) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (مرحبا)۔ حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے والد سے تیرہ درہم میں ایک کجاوا خریدا۔پھر زہیر کی ابو اسحاق سے روایت کردہ حدیث کے مانند حدیث بیان کی اور اپنی حدیث میں انھوں نے کہا:عثمان بن عمر کی روایت میں ہے،جب وہ سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف دعا کی،ان کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔وہ اچھل کر اس سے اترے اور کہا:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپ کا کا م ہے۔آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس مشکل سے،میں جس میں پھنس گیا ہوں،چھٹکارہ عطا کردے اور آپ کی طرف سے یہ بات میرے ذمے ہوئی کہ میرے پیچھے جو بھی(آپ کا تعاقب کررہا) ہے میں اس کی آنکھوں کو(آپ کی طرف) دیکھنے سے روک دوں گا اور یہ میرا ترکش ہے،اس میں سے ایک تیر نکال لیں،آپ فلاں مقام پر میرے اونٹوں اور میرے غلاموں کے پاس سے گزریں گے،ان میں سے جس کی ضرورت ہو اسے لے لیں۔آپ نے فرمایا:"مجھے تمہارے اونٹوں کی ضرورت نہیں۔"چنانچہ ہم رات کے وقت مدینہ(کے قریب) پہنچے۔لوگوں نے اس کے بارے میں تنازع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کے ہاں اتریں گے(مہمان بنیں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں(اپنے د ادا) عبدالمطلب کے ننھیال بنو نجار کا مہمان بن کر ان کی عزت افزائی کروں گا۔"مرد،عورتیں گھروں کے اوپر چڑھ گئے اور غلام اور نوکر چاکر راستوں میں بکھر گئے۔وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|