صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ
زہد اور رقت انگیز باتیں
The Book of Zuhd and Softening of Hearts
18. باب حَدِيثِ جَابِرٍ الطَّوِيلِ وَقِصَّةِ أَبِي الْيَسَرِ:
باب: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث اور قصہ ابی الیسر کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 7512
Save to word اعراب
حدثنا هارون بن معروف ، ومحمد بن عباد ، وتقاربا في لفظ الحديث، والسياق لهارون، قالا: حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن يعقوب بن مجاهد ابي حزرة ، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت ، قال: " خرجت انا وابي نطلب العلم في هذا الحي من الانصار قبل ان يهلكوا، فكان اول من لقينا ابا اليسر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه غلام له معه ضمامة من صحف، وعلى ابي اليسر بردة ومعافري وعلى غلامه بردة ومعافري، فقال له ابي: يا عم إني ارى في وجهك سفعة من غضب؟، قال: اجل كان لي على فلان ابن فلان الحرامي مال، فاتيت اهله، فسلمت، فقلت: ثم هو، قالوا: لا فخرج علي ابن له جفر، فقلت له: اين ابوك؟، قال: سمع صوتك فدخل اريكة امي، فقلت: اخرج إلي فقد علمت اين انت فخرج، فقلت: ما حملك على ان اختبات مني؟، قال: انا والله احدثك، ثم لا اكذبك خشيت والله ان احدثك فاكذبك، وان اعدك فاخلفك وكنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكنت والله معسرا، قال: قلت: آلله، قال: الله، قلت: آلله، قال: الله، قلت: آلله، قال: الله، قال: فاتى بصحيفته، فمحاها بيده، فقال: إن وجدت قضاء، فاقضني وإلا انت في حل، فاشهد بصر عيني هاتين، ووضع إصبعيه على عينيه وسمع اذني هاتين ووعاه قلبي هذا، واشار إلى مناط قلبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: من انظر معسرا او وضع عنه اظله الله في ظله،حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، وَالسِّيَاقُ لِهَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَاهِدٍ أَبِي حَزْرَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: " خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي نَطْلُبُ الْعِلْمَ فِي هَذَا الْحَيِّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَبْلَ أَنْ يَهْلِكُوا، فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ لَقِينَا أَبَا الْيَسَرِ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غُلَامٌ لَهُ مَعَهُ ضِمَامَةٌ مِنْ صُحُفٍ، وَعَلَى أَبِي الْيَسَرِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيَّ وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيَّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: يَا عَمِّ إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِكَ سَفْعَةً مِنْ غَضَبٍ؟، قَالَ: أَجَلْ كَانَ لِي عَلَى فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ الْحَرَامِيِّ مَالٌ، فَأَتَيْتُ أَهْلَهُ، فَسَلَّمْتُ، فَقُلْتُ: ثَمَّ هُوَ، قَالُوا: لَا فَخَرَجَ عَلَيَّ ابْنٌ لَهُ جَفْرٌ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ أَبُوكَ؟، قَالَ: سَمِعَ صَوْتَكَ فَدَخَلَ أَرِيكَةَ أُمِّي، فَقُلْتُ: اخْرُجْ إِلَيَّ فَقَدْ عَلِمْتُ أَيْنَ أَنْتَ فَخَرَجَ، فَقُلْتُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنِ اخْتَبَأْتَ مِنِّي؟، قَالَ: أَنَا وَاللَّهِ أُحَدِّثُكَ، ثُمَّ لَا أَكْذِبُكَ خَشِيتُ وَاللَّهِ أَنْ أُحَدِّثَكَ فَأَكْذِبَكَ، وَأَنْ أَعِدَكَ فَأُخْلِفَكَ وَكُنْتَ صَاحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ وَاللَّهِ مُعْسِرًا، قَالَ: قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قَالَ: فَأَتَى بِصَحِيفَتِهِ، فَمَحَاهَا بِيَدِهِ، فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتَ قَضَاءً، فَاقْضِنِي وَإِلَّا أَنْتَ فِي حِلٍّ، فَأَشْهَدُ بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى عَيْنَيْهِ وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ وَوَعَاهُ قَلْبِي هَذَا، وَأَشَارَ إِلَى مَنَاطِ قَلْبِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ،
ہارون بن معروف اور محمد بن عباد نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ دونوں سے ملتے جلتے ہیں جبکہ سیاق ہارون کا ہے۔دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے یعقوب بن مجاہد ابو حزرہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: میں اور میرے والد طلب علم کے لیے انصار کے اس قبیلے کی ہلاکت سے پہلے اس میں گئے، سب سے پہلے شخصد جن سے ہماری ملاقات ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو یسر رضی اللہ عنہ تھے، ان کےساتھ ان کایک غلام بھی تھا جس کے پاس صحائف (دستاویزات) کا ایک مجموعہ تھا، حضرت ابو یسر رضی اللہ عنہ کے بدن پر ایک دھاری دار چادر اور معافر کا بنا ہوا ایک کپرا تھا۔اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک دھاری دار چادر اور ایک معافری کپڑا تھا۔میرے والد نے ان سے کہا: چچا!میں غصے کی بنا پر آپ کے چہرے پر رنگ کی تبدیلی دیکھ رہا ہوں، انھوں نے کہا: ہاں، فلاں بن فلاں، جس کاتعلق بنو حرام سے ہے، سلام کیا اور میں نے پوچھا: کیا وہ ہے؟گھر والوں نے کہا: نہیں ہے پھر اچانک اس کا ایک کمر عمر لڑکا میرے سامنے گھر سے نکلا، میں نے اس سے پوچھا: تیر ا باپ کہاں ہے؟اس نے کہا: انھوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری والدہ کے چھپر کھٹ میں گھس گئے ہیں۔میں نےکہا: نکل کرمیری طرف آجاؤ، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں ہو۔وہ باہر نکل آیا میں نے پوچھا: اس بات کا باعث کیابنا کہ تم مجھ سے چھپ گئے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا، اللہ کی قسم!میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے وعدہ کروں اور آپ کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کروں، جبکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں تنگ دست تھا، انھوں نے کہا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں نے (دوبارہ) کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں نے (پھر) کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!کہا: پھر انھوں نے اپنا صحیفہ (جس پر قرض کی تحریر لکھی ہوئی تھی) نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس کومٹا دیا (پھر مقروض سے) کہا: اگر تمھیں ادائیگی کے لیے مال مل جائے تو میرا قرض لوٹا دینا اور نہیں تو تم بری الذمہ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے (دیکھا) اور (یہ کہتے ہوئے) انھوں نے اپنی دو انگلیاں اپنی دو آنکھوں پر رکھیں، اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا۔اور انھوں نے اپنے دل والی جگہ پر اشارہ کیا۔جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہےتھے: "جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض ختم کردیا اللہ تعالیٰ اپنے سائے سے اس پر سایہ کرے گا۔"
عبادہ رحمۃ اللہ علیہ بن ولید رحمۃ اللہ علیہ بن صامت بیان کرتے ہیں، میں اور میرے والد(ولید) طلب علم کے لیے انصار کے اس قبیلے کی ہلاکت سے پہلے اس میں گئے،سب سے پہلے جس شخص سے ہماری ملاقات ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،ان کےساتھ ان کایک غلام بھی تھا جس کے پاس صحائف(دستاویزات) کا ایک مجموعہ تھا،حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدن پر ایک دھاری دار چادر اور معافر کا بنا ہوا ایک کپرا تھا۔اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک دھاری دار چادر اور ایک معافری کپڑا تھا۔میرے والد نے ان سے کہا:چچا!میں غصے کی بنا پر آپ کے چہرے پر رنگ کی تبدیلی دیکھ رہا ہوں،انھوں نے کہا:ہاں،فلاں بن فلاں،جس کاتعلق بنو حرام سے ہے،سلام کیا اور میں نے پوچھا:کیا وہ ہے؟گھر والوں نے کہا:نہیں ہے پھر اچانک اس کا ایک کمر عمر لڑکا میرے سامنے گھر سے نکلا،میں نے اس سے پوچھا:تیر ا باپ کہاں ہے؟اس نے کہا:انھوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری والدہ کے چھپر کھٹ میں گھس گئے ہیں۔میں نےکہا:نکل کرمیری طرف آجاؤ،مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں ہو۔وہ باہر نکل آیا میں نے پوچھا:اس بات کا باعث کیابنا کہ تم مجھ سے چھپ گئے؟اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا،اللہ کی قسم!میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے وعدہ کروں اور آپ کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کروں،جبکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں تنگ دست تھا،انھوں نے کہا کہ میں نے کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں نے(دوبارہ) کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں نے(پھر)کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!کہا:پھر انھوں نے اپنا صحیفہ(جس پر قرض کی تحریر لکھی ہوئی تھی)نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس کومٹا دیا(پھر مقروض سے)کہا:اگر تمھیں ادائیگی کے لیے مال مل جائے تو میرا قرض لوٹا دینا اور نہیں تو تم بری الذمہ ہو،میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے(دیکھا) اور (یہ کہتے ہوئے) انھوں نے اپنی دو انگلیاں اپنی دو آنکھوں پر رکھیں،اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا۔اور انھوں نے اپنے دل والی جگہ پر اشارہ کیا۔جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہےتھے:"جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض ختم کردیا اللہ تعالیٰ اپنے سائے سے اس پر سایہ کرے گا۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7513
Save to word اعراب
قال: فقلت له: انا يا عم لو انك اخذت بردة غلامك واعطيته معافريك، واخذت معافريه واعطيته بردتك، فكانت عليك حلة وعليه حلة، فمسح راسي، وقال: اللهم بارك فيه يا ابن اخي بصر عيني هاتين، وسمع اذني هاتين، ووعاه قلبي هذا واشار إلى مناط قلبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: اطعموهم مما تاكلون والبسوهم مما تلبسون، وكان ان اعطيته من متاع الدنيا اهون علي من ان ياخذ من حسناتي يوم القيامة ".قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَنَا يَا عَمِّ لَوْ أَنَّكَ أَخَذْتَ بُرْدَةَ غُلَامِكَ وَأَعْطَيْتَهُ مَعَافِرِيَّكَ، وَأَخَذْتَ مَعَافِرِيَّهُ وَأَعْطَيْتَهُ بُرْدَتَكَ، فَكَانَتْ عَلَيْكَ حُلَّةٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِ يَا ابْنَ أَخِي بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَعَاهُ قَلْبِي هَذَا وَأَشَارَ إِلَى مَنَاطِ قَلْبِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَكَانَ أَنْ أَعْطَيْتُهُ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
(عبادہ بن ولید نے) کہا: میں نے ان سے کہا: چچاجان!اگر آپ اپنے غلام کی دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے اپنا معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے اس کا معافری کپڑا لے لیتے اور اسے اپنی دھاری دار چادر دے دیتے تو آپ کے جسم پر ایک جوڑا ہوتا اور اس کے جسم پر بھی ایک جوڑا ہوتا۔انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اے اللہ! اس کو برکت عطا فرما۔بھتیجے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں کی بصارت (نے دیکھا) اور میرے دو کانوں نے سنا اور۔دل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرے دل نے اسے یاد رکھا، جبکہ آپ فرمارہے تھے۔"ان (غلاموں) کو اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور اسی میں سے پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔"اگرمیں نے اسے دنیا کی نعمتوں میں سے (اس کا حصہ) دے دیاہے تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جاتا۔
عبادہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،میں نے ان سےکہا،اے چچاجان!اگر آپ اپنے غلام کی دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے اپنا معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے اس کا معافری کپڑا لے لیتے اور اسے اپنی دھاری دار چادر دے دیتے تو آپ کے جسم پر ایک جوڑا ہوتا اور اس کے جسم پر بھی ایک جوڑا ہوتا۔انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:اے اللہ! اس کو برکت عطا فرما۔بھتیجے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں کی بصارت(نے دیکھا) اور میرے دو کانوں نے سنا اور۔دل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرے دل نے اسے یاد رکھا،جبکہ آپ فرمارہے تھے۔"ان(غلاموں) کو اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور اسی میں سے پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔"اگرمیں نے اسے دنیا کی نعمتوں میں سے(اس کا حصہ) دے دیاہے تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7514
Save to word اعراب
(حديث موقوف) ثم مضينا حتى اتينا جابر بن عبد الله في مسجده وهو يصلي في ثوب واحد مشتملا به، فتخطيت القوم حتى جلست بينه وبين القبلة، فقلت: يرحمك الله اتصلي في ثوب واحد ورداؤك إلى جنبك؟، قال: فقال: بيده في صدري هكذا، وفرق بين اصابعه، وقوسها اردت ان يدخل علي الاحمق مثلك، فيراني كيف اصنع فيصنع مثله، اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجدنا هذا وفي يده عرجون ابن طاب، فراى في قبلة المسجد نخامة، فحكها بالعرجون، ثم اقبل علينا، فقال: ايكم يحب ان يعرض الله عنه، قال: فخشعنا، ثم قال: ايكم يحب ان يعرض الله عنه؟، قال: فخشعنا، ثم قال: ايكم يحب ان يعرض الله عنه؟، قلنا: لا اينا يا رسول الله، قال: فإن احدكم إذا قام يصلي، فإن الله تبارك وتعالى قبل وجهه، فلا يبصقن قبل وجهه ولا عن يمينه وليبصق عن يساره تحت رجله اليسرى، فإن عجلت به بادرة، فليقل بثوبه هكذا ثم طوى ثوبه بعضه على بعض، فقال: اروني عبيرا، فقام فتى من الحي يشتد إلى اهله، فجاء بخلوق في راحته، فاخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعله على راس العرجون ثم لطخ به على اثر النخامة، فقال جابر: فمن هناك جعلتم الخلوق في مساجدكم(حديث موقوف) ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى أَتَيْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي مَسْجِدِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُشْتَمِلًا بِهِ، فَتَخَطَّيْتُ الْقَوْمَ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ أَتُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَرِدَاؤُكَ إِلَى جَنْبِكَ؟، قَالَ: فَقَالَ: بِيَدِهِ فِي صَدْرِي هَكَذَا، وَفَرَّقَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، وَقَوَّسَهَا أَرَدْتُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيَّ الْأَحْمَقُ مِثْلُكَ، فَيَرَانِي كَيْفَ أَصْنَعُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ، أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِنَا هَذَا وَفِي يَدِهِ عُرْجُونُ ابْنِ طَابٍ، فَرَأَى فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ نُخَامَةً، فَحَكَّهَا بِالْعُرْجُونِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَخَشَعْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ؟، قَالَ: فَخَشَعْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ؟، قُلْنَا: لَا أَيُّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلَا يَبْصُقَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ تَحْتَ رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِنْ عَجِلَتْ بِهِ بَادِرَةٌ، فَلْيَقُلْ بِثَوْبِهِ هَكَذَا ثُمَّ طَوَى ثَوْبَهُ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَرُونِي عَبِيرًا، فَقَامَ فَتًى مِنَ الْحَيِّ يَشْتَدُّ إِلَى أَهْلِهِ، فَجَاءَ بِخَلُوقٍ فِي رَاحَتِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَهُ عَلَى رَأْسِ الْعُرْجُونِ ثُمَّ لَطَخَ بِهِ عَلَى أَثَرِ النُّخَامَةِ، فَقَالَ جَابِرٌ: فَمِنْ هُنَاكَ جَعَلْتُمُ الْخَلُوقَ فِي مَسَاجِدِكُمْ
پھر ہم (آگے) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں حاضر ہوئے وہ ایک کپڑے میں اسے دونوں پلوؤں کو مخالف سمتوں میں کندھوں کے اوپر سے گزار کر باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا گیا یہاں تک کہ ان کے اور قبلے کے درمیان جاکر بیٹھ گیا۔ (جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے ان سے کہا: آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی چادر آپ کے پہلو میں پڑی ہوئی ہے؟ انھوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے میرے سینے میں مارا انھوں (عبادہ) نے اپنی انگلیاں الگ کیں اور انھیں کمان کی طرح موڑا (اور کہنے لگے) میں (یہی) چاہتا تھا کہ تم جیسا کوئی نا سمجھ میرے پاس آئے اور دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں، پھر وہ (بھی) اس طرح کر لیا کرے۔ (پھر کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے آپ کے دست مبارک میں ابن طاب (کی کھجور) کی ایک شاخ تھی آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف (والی دیوارپر) جماہوا بلغم لگا دیکھا۔آپ نے کھجور کی شاخ سے اس کو کھرچ کر صاف کیا پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا: تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے (اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟کہا: تو ہم سب ڈر گئے۔آپ نے پھر فرمایا: تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"کہا: ہم پر خوف طاری ہوگیا آپ نے پھر سے فرمایا: "تم میں سے کسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے کسی کو بھی (یہ بات پسند) نہیں آپ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے لہٰذا اسے سامنے کی طرف ہر گز تھوکنا نہیں چاہیے۔نہ دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔اگر جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح (صاف) کرے۔"پھرآپ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرےحصے پر تہ لگائی پھر فرمایا: "مجھے خوشبو لاکردو۔"قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ (خوشبو) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔
پھرہم باپ بیٹا چلے حتی کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں پہنچ گئے وہ ایک کپڑے میں اسے دونوں پلوؤں کو مخالف سمتوں میں کندھوں کے اوپر سے گزار کر باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا گیا یہاں تک کہ ان کے اور قبلے کے درمیان جاکر بیٹھ گیا۔(جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے ان سے کہا: آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی چادر آپ کے پہلو میں پڑی ہوئی ہے؟ انھوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے میرے سینے میں مارا انھوں (عبادہ) نے اپنی انگلیاں الگ کیں اور انھیں کمان کی طرح موڑا(اور کہنے لگے) میں (یہی) چاہتا تھا کہ تم جیسا کوئی نا سمجھ میرے پاس آئے اور دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں،پھر وہ(بھی) اس طرح کر لیا کرے۔(پھر کہا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے آپ کے دست مبارک میں ابن طاب(کی کھجور) کی ایک شاخ تھی آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف (والی دیوارپر)جماہوا بلغم لگا دیکھا۔آپ نے کھجور کی شاخ سے اس کو کھرچ کر صاف کیا پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا:'تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے (اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟کہا: تو ہم سب ڈر گئے۔آپ نے پھر فرمایا:'تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"کہا: ہم پر خوف طاری ہوگیا آپ نے پھر سے فرمایا:"تم میں سے کسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے کسی کو بھی (یہ بات پسند) نہیں آپ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے لہٰذا اسے سامنے کی طرف ہر گز تھوکنا نہیں چاہیے۔نہ دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔اگر جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح (صاف) کرے۔"پھرآپ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرےحصے پر تہ لگائی پھر فرمایا:"مجھے خوشبو لاکردو۔"قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ(خوشبو) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7515
Save to word اعراب
سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بطن بواط وهو يطلب المجدي بن عمرو الجهني، وكان الناضح يعقبه منا الخمسة والستة والسبعة، فدارت عقبة رجل من الانصار على ناضح له، فاناخه فركبه ثم بعثه، فتلدن عليه بعض التلدن، فقال له: شا لعنك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من هذا اللاعن بعيره؟، قال: انا يا رسول الله، قال انزل عنه، فلا تصحبنا بملعون لا تدعوا على انفسكم، ولا تدعوا على اولادكم ولا تدعوا على اموالكم لا توافقوا من الله ساعة، يسال فيها عطاء، فيستجيب لكمسِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَطْنِ بُوَاطٍ وَهُوَ يَطْلُبُ الْمَجْدِيَّ بْنَ عَمْرٍو الْجُهَنِيَّ، وَكَانَ النَّاضِحُ يَعْقُبُهُ مِنَّا الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ وَالسَّبْعَةُ، فَدَارَتْ عُقْبَةُ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى نَاضِحٍ لَهُ، فَأَنَاخَهُ فَرَكِبَهُ ثُمَّ بَعَثَهُ، فَتَلَدَّنَ عَلَيْهِ بَعْضَ التَّلَدُّنِ، فَقَالَ لَهُ: شَأْ لَعَنَكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا اللَّاعِنُ بَعِيرَهُ؟، قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ انْزِلْ عَنْهُ، فَلَا تَصْحَبْنَا بِمَلْعُونٍ لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَوْلَادِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللَّهِ سَاعَةً، يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاءٌ، فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ
(جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بواط کی جنگ میں تھے۔آپ (قبیلہ جحینہ کے سردار) مجدی بن عمروجہنی کو ڈھونڈ رہے تھے پانی ڈھونے والے ایک اونٹ پر ہم پانچ چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتےتھے۔انصار میں سے ایک آدمی کی اپنے اونٹ پر (بیٹھنے کی) باری آئی تو اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پرسوار ہوگیا۔پھر اس کو اٹھا یا تو اس (اونٹ) نے اس (کے حکم) پر اٹھنے میں کسی حد تک دیر کی تو اس نے کہا: کھڑا ہو، تم پر اللہ لعنت کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے؟اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں۔ آپ نے فرمایا: "اس سے اتر جاؤ جس پر لعنت کی گئی ہو وہ ہمارے ساتھ نہ چلے اپنے آپ کو بددعا نہ دو نہ اپنی اولاد کو بددعا دو نہ اپنے مال مویشی کو بددعا دو اللہ کی طرف سے (مقرر کردہ قبولیت کی) گھڑی کی موافقت نہ کرو جس میں (جو) کچھ مانگا جاتا ہے وہ تمھیں عطا کردیا جاتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بواط کی جنگ میں تھے۔آپ مجدی بن عمروجہنی کو ڈھونڈ رہے تھے پانی ڈھونے والے ایک اونٹ پر ہم پانچ چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتےتھے۔انصار میں سے ایک آدمی کی اپنے اونٹ پر(بیٹھنے کی)باری آئی تو اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پرسوار ہوگیا۔پھر اس کو اٹھا یا تو اس (اونٹ)نے اس(کے حکم)پر اٹھنے میں کسی حد تک دیر کی تو اس نے کہا: کھڑا ہو،تم پر اللہ لعنت کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے؟اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں۔ آپ نے فرمایا:"اس سے اتر جاؤ جس پر لعنت کی گئی ہو وہ ہمارے ساتھ نہ چلے اپنے آپ کو بددعا نہ دو نہ اپنی اولاد کو بددعا دو نہ اپنے مال مویشی کو بددعا دو اللہ کی طرف سے گھڑی کی موافقت نہ کرو جس میں(جو) کچھ مانگا جاتا ہے وہ تمھیں عطا کردیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7516
Save to word اعراب
سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كانت عشيشية، ودنونا ماء من مياه العرب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من رجل يتقدمنا، فيمدر الحوض، فيشرب ويسقينا، قال جابر: فقمت، فقلت: هذا رجل يا رسول الله، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي رجل مع جابر، فقام جبار بن صخر، فانطلقنا إلى البئر، فنزعنا في الحوض سجلا او سجلين، ثم مدرناه ثم نزعنا فيه حتى افهقناه، فكان اول طالع علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اتاذنان؟، قلنا: نعم، يا رسول الله، فاشرع ناقته، فشربت شنق لها، فشجت فبالت ثم عدل بها، فاناخها ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحوض، فتوضا منه ثم قمت، فتوضات من متوضإ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب جبار بن صخر يقضي حاجته، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي، وكانت علي بردة ذهبت ان اخالف بين طرفيها، فلم تبلغ لي وكانت لها ذباذب، فنكستها ثم خالفت بين طرفيها ثم تواقصت عليها ثم جئت حتى قمت عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذ بيدي فادارني حتى اقامني عن يمينه ثم جاء جبار بن صخر، فتوضا ثم جاء فقام عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدينا جميعا، فدفعنا حتى اقامنا خلفه، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمقني وانا لا اشعر، ثم فطنت به، فقال: هكذا بيده يعني شد وسطك، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا جابر، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: إذا كان واسعا، فخالف بين طرفيه، وإذا كان ضيقا، فاشدده على حقوكسِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ عُشَيْشِيَةٌ، وَدَنَوْنَا مَاءً مِنْ مِيَاهِ الْعَرَبِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ يَتَقَدَّمُنَا، فَيَمْدُرُ الْحَوْضَ، فَيَشْرَبُ وَيَسْقِينَا، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ رَجُلٍ مَعَ جَابِرٍ، فَقَامَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْبِئْرِ، فَنَزَعْنَا فِي الْحَوْضِ سَجْلًا أَوْ سَجْلَيْنِ، ثُمَّ مَدَرْنَاهُ ثُمَّ نَزَعْنَا فِيهِ حَتَّى أَفْهَقْنَاهُ، فَكَانَ أَوَّلَ طَالِعٍ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَأْذَنَانِ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشْرَعَ نَاقَتَهُ، فَشَرِبَتْ شَنَقَ لَهَا، فَشَجَتْ فَبَالَتْ ثُمَّ عَدَلَ بِهَا، فَأَنَاخَهَا ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحَوْضِ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ قُمْتُ، فَتَوَضَّأْتُ مِنْ مُتَوَضَّإِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ ذَهَبْتُ أَنْ أُخَالِفَ بَيْنَ طَرَفَيْهَا، فَلَمْ تَبْلُغْ لِي وَكَانَتْ لَهَا ذَبَاذِبُ، فَنَكَّسْتُهَا ثُمَّ خَالَفْتُ بَيْنَ طَرَفَيْهَا ثُمَّ تَوَاقَصْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى قُمْتُ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ جَاءَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَامَ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْنَا جَمِيعًا، فَدَفَعَنَا حَتَّى أَقَامَنَا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمُقُنِي وَأَنَا لَا أَشْعُرُ، ثُمَّ فَطِنْتُ بِهِ، فَقَالَ: هَكَذَا بِيَدِهِ يَعْنِي شُدَّ وَسَطَكَ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا جَابِرُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِذَا كَانَ وَاسِعًا، فَخَالِفْ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، وَإِذَا كَانَ ضَيِّقًا، فَاشْدُدْهُ عَلَى حَقْوِكَ
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس) کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر) وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر) وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس (چادر) کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا (گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا) پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا: "آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: "اے جابر رضی اللہ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس)کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر)وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر)وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس(چادر)کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا(گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا)پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا:"آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا:"اے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7517
Save to word اعراب
سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان قوت كل رجل منا في كل يوم تمرة، فكان يمصها ثم يصرها في ثوبه وكنا نختبط بقسينا، وناكل حتى قرحت اشداقنا، فاقسم اخطئها رجل منا يوما، فانطلقنا به ننعشه، فشهدنا انه لم يعطها، فاعطيها، فقام فاخذهاسِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قُوتُ كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا فِي كُلِّ يَوْمٍ تَمْرَةً، فَكَانَ يَمَصُّهَا ثُمَّ يَصُرُّهَا فِي ثَوْبِهِ وَكُنَّا نَخْتَبِطُ بِقِسِيِّنَا، وَنَأْكُلُ حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا، فَأُقْسِمُ أُخْطِئَهَا رَجُلٌ مِنَّا يَوْمًا، فَانْطَلَقْنَا بِهِ نَنْعَشُهُ، فَشَهِدْنَا أَنَّهُ لَمْ يُعْطَهَا، فَأُعْطِيَهَا، فَقَامَ فَأَخَذَهَا
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک مہم پرگئے۔ہم میں سے ہر شخص کی خوراک روز کی ایک کھجور تھی وہ اس کھجور کو چوستا رہتا اور پھر اس کو اپنے کپڑے میں لپیٹ لیتا ہم اپنی کمانوں سے درختوں کے پتےجھاڑتے تھے اور کھاتے تھے حتیٰ کہ ہماری باچھوں میں زخم ہو ئے۔قسم کھاتا ہوں کہ ایک دن ہم میں سے ایک غلطی سے اس (ایک کھجور) سے محروم رہ گیا ہم اسے (سہارادے کر) اٹھاتے ہوئے لے کر (تقسیم کرنے والے کے پاس) گئے۔اور اس کے حق میں گواہی دی کہ اسے وہ ایک کھجور) نہیں دی گئی۔وہ اسے دی گئی تو اس نے خود کھڑے ہو کر لی۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے اور روزانہ ہم میں سے ہر آدمی کی خوراک ایک کھجورتھی،جسے وہ چوستا،پھر اسے اپنے کپڑے میں باندھ لیتا(تاکہ پھر چوس سکے)اورہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور کھالیتے،حتیٰ کہ ہماری باچھیں چھل گئیں،میں قسم کھاتا ہوں،ایک دن ہم میں سے ایک آدمی کو چوک کرنہ دی گئی،تو ہم اس کو اٹھا کرلے گئے اور ہم نے گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں دی گئی،تو اسے کھجور دی گئی اور اس نے کھڑے ہوکر کھالی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7518
Save to word اعراب
سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزلنا واديا افيح، فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته، فاتبعته بإداوة من ماء، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم ير شيئا يستتر به، فإذا شجرتان بشاطئ الوادي، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى إحداهما، فاخذ بغصن من اغصانها، فقال: انقادي علي بإذن الله، فانقادت معه كالبعير المخشوش الذي يصانع قائده حتى اتى الشجرة الاخرى، فاخذ بغصن من اغصانها، فقال: انقادي علي بإذن الله، فانقادت معه كذلك حتى إذا كان بالمنصف مما بينهما لام بينهما يعني جمعهما، فقال: التئما علي بإذن الله، فالتامتا، قال جابر: فخرجت احضر مخافة ان يحس رسول الله صلى الله عليه وسلم بقربي فيبتعد، وقال محمد بن عباد: فيتبعد فجلست احدث نفسي، فحانت مني لفتة، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا وإذا الشجرتان قد افترقتا، فقامت كل واحدة منهما على ساق، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف وقفة، فقال براسه هكذا واشار ابو إسماعيل براسه يمينا وشمالا ثم اقبل، فلما انتهى إلي، قال: يا جابر هل رايت مقامي؟، قلت: نعم يا رسول الله، قال: فانطلق إلى الشجرتين فاقطع من كل واحدة منهما غصنا، فاقبل بهما حتى إذا قمت مقامي، فارسل غصنا عن يمينك وغصنا عن يسارك، قال جابر: فقمت فاخذت حجرا، فكسرته وحسرته فانذلق لي، فاتيت الشجرتين فقطعت من كل واحدة منهما غصنا، ثم اقبلت اجرهما حتى قمت مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ارسلت غصنا عن يميني وغصنا عن يساري، ثم لحقته، فقلت: قد فعلت يا رسول الله، فعم ذاك، قال: إني مررت بقبرين يعذبان، فاحببت بشفاعتي ان يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين،سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ، فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِهِ، فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِئِ الْوَادِي، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى إِحْدَاهُمَا، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ حَتَّى أَتَى الشَّجَرَةَ الْأُخْرَى، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا لَأَمَ بَيْنَهُمَا يَعْنِي جَمَعَهُمَا، فَقَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَالْتَأَمَتَا، قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ يُحِسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُرْبِي فَيَبْتَعِدَ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ: فَيَتَبَعَّدَ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي، فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَةٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا، فَقَامَتْ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَى سَاقٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ وَقْفَةً، فَقَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ أَبُو إِسْمَاعِيلَ بِرَأْسِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا ثُمَّ أَقْبَلَ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيَّ، قَالَ: يَا جَابِرُ هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟، قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَى الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، فَأَقْبِلْ بِهِمَا حَتَّى إِذَا قُمْتَ مَقَامِي، فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِينِكَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِكَ، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا، فَكَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ فَانْذَلَقَ لِي، فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتَّى قُمْتُ مَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِينِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَعَمَّ ذَاكَ، قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِي أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ،
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک مہم کے لیے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم کشادہ وادی میں جا اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے میں (چمڑے کا بناہوا) پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر دوڑائی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے۔وادی کے کنارے پردودرخت نظر آئے آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑ ا اور فرمایا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑا اور کہا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ (اسے چلاتے ہوئے) دونوں کے درمیان کے آدھے فاصلے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا (کراکٹھا کر) دیا آپ نے فرمایا: "دونوں اللہ کے حکم سے میرے آگے مل جاؤ۔تو وہ دونوں ساتھ گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کر دیا) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ میرے قریب ہونے کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے (مزید) دور (جانے پر مجبور) نہ ہو جائیں اور محمد بن عباد نے (اپنی روایت میں) کہا: آپ کو دورجانے کی زحمت کرنی پڑے میں (ایک جگہ) بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں۔ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑاہو گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا۔ابو اسماعیل (حاتم بن اسماعیل) نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔پھر آپ آگے تشریف لائے جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا: " جابر رضی اللہ عنہ!کیا تم میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟میں نے عرض کی جی ہاں۔آپ نے فرمایا: "دونوں درختوں کی طرف جاؤ اور دونوں میں سے ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹ لاؤ یہاں تک کہ آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ بائیں طرف۔" حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اٹھا ایک پتھر اٹھا یا اسے توڑا اور اسے گھسایا جب وہ میرے (کام کے) کے لئے تیز ہوگیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹی، پھر ان کو گھسیٹتا ہوا آیا، یہاں تک کہ آکر اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور ایک اپنی بائیں طرف۔پھر میں آپ کے ساتھ جاملا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (جو آپ نے فرمایا تھا) میں نے کردیا ہے وہ کس لیے تھا؟فرمایا: "میں و قبروں کے پاس سے گزرا ان کو عذاب دیاجارہاتھا۔میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے اس وقت تک کے لیے تخفیف کردی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھلی وادی میں چلے،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے اور میں بھی پانی کابرتن لے کر آپ کے پیچھے ہولیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر دوڑائی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے۔وادی کے کنارے پردودرخت نظر آئے آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑ ا اور فرمایا:"اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑا اور کہا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ (اسے چلاتے ہوئے) دونوں کے درمیان کے آدھے فاصلے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا (کراکٹھا کر)دیا آپ نے فرمایا:"دونوں اللہ کے حکم سے میرے آگے مل جاؤ۔تو وہ دونوں ساتھ گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کر دیا)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ میرے قریب ہونے کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے (مزید) دور (جانے پر مجبور)نہ ہو جائیں اور محمد بن عباد نے (اپنی روایت میں)کہا: آپ کو دورجانے کی زحمت کرنی پڑے میں (ایک جگہ) بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں۔ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑاہو گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا۔ابو اسماعیل (حاتم بن اسماعیل)نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔پھر آپ آگے تشریف لائے جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا:" جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!کیا تم میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟میں نے عرض کی جی ہاں۔آپ نے فرمایا:"دونوں درختوں کی طرف جاؤ اور دونوں میں سے ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹ لاؤ یہاں تک کہ آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ بائیں طرف۔"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں اٹھا ایک پتھر اٹھا یا اسے توڑا اور اسے گھسایا جب وہ میرے(کام کے)کے لئے تیز ہوگیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا ہر ایک سے ایک(ایک) شاخ کاٹی،پھر ان کو گھسیٹتا ہوا آیا،یہاں تک کہ آکر اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور ایک اپنی بائیں طرف۔پھر میں آپ کے ساتھ جاملا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(جو آپ نے فرمایا تھا)میں نے کردیا ہے وہ کس لیے تھا؟فرمایا:"میں قبروں کے پاس سے گزرا ان کو عذاب دیاجارہاتھا۔میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے اس وقت تک کے لیے تخفیف کردی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7519
Save to word اعراب
قال: فاتينا العسكر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا جابر ناد بوضوء، فقلت: الا وضوء الا وضوء الا وضوء، قال: قلت: يا رسول الله، ما وجدت في الركب من قطرة، وكان رجل من الانصار يبرد لرسول الله صلى الله عليه وسلم الماء في اشجاب له على حمارة من جريد، قال: فقال لي: انطلق إلى فلان ابن فلان الانصاري، فانظر هل في اشجابه من شيء؟، قال: فانطلقت إليه، فنظرت فيها فلم اجد فيها إلا قطرة في عزلاء شجب منها لو اني افرغه لشربه يابسه، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني لم اجد فيها إلا قطرة في عزلاء شجب منها لو اني افرغه لشربه يابسه، قال: اذهب، فاتني به، فاتيته به، فاخذه بيده فجعل يتكلم بشيء لا ادري ما هو ويغمزه بيديه ثم اعطانيه، فقال يا جابر: ناد بجفنة، فقلت: يا جفنة الركب، فاتيت بها تحمل، فوضعتها بين يديه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده في الجفنة هكذا، فبسطها وفرق بين اصابعه ثم وضعها في قعر الجفنة، وقال: خذ يا جابر فصب علي، وقل باسم الله فصببت عليه، وقلت: باسم الله، فرايت الماء يفور من بين اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم فارت الجفنة ودارت حتى امتلات، فقال يا جابر: ناد من كان له حاجة بماء، قال: فاتى الناس، فاستقوا حتى رووا، قال: فقلت: هل بقي احد له حاجة؟، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده من الجفنة وهي ملاى،قَالَ: فَأَتَيْنَا الْعَسْكَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا جَابِرُ نَادِ بِوَضُوءٍ، فَقُلْتُ: أَلَا وَضُوءَ أَلَا وَضُوءَ أَلَا وَضُوءَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا وَجَدْتُ فِي الرَّكْبِ مِنْ قَطْرَةٍ، وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُبَرِّدُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَاءَ فِي أَشْجَابٍ لَهُ عَلَى حِمَارَةٍ مِنْ جَرِيدٍ، قَالَ: فَقَالَ لِيَ: انْطَلِقْ إِلَى فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ الْأَنْصَارِيِّ، فَانْظُرْ هَلْ فِي أَشْجَابِهِ مِنْ شَيْءٍ؟، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ، فَنَظَرْتُ فِيهَا فَلَمْ أَجِدْ فِيهَا إِلَّا قَطْرَةً فِي عَزْلَاءِ شَجْبٍ مِنْهَا لَوْ أَنِّي أُفْرِغُهُ لَشَرِبَهُ يَابِسُهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَجِدْ فِيهَا إِلَّا قَطْرَةً فِي عَزْلَاءِ شَجْبٍ مِنْهَا لَوْ أَنِّي أُفْرِغُهُ لَشَرِبَهُ يَابِسُهُ، قَالَ: اذْهَبْ، فَأْتِنِي بِهِ، فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَأَخَذَهُ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِشَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ وَيَغْمِزُهُ بِيَدَيْهِ ثُمَّ أَعْطَانِيهِ، فَقَالَ يَا جَابِرُ: نَادِ بِجَفْنَةٍ، فَقُلْتُ: يَا جَفْنَةَ الرَّكْبِ، فَأُتِيتُ بِهَا تُحْمَلُ، فَوَضَعْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فِي الْجَفْنَةِ هَكَذَا، فَبَسَطَهَا وَفَرَّقَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ وَضَعَهَا فِي قَعْرِ الْجَفْنَةِ، وَقَالَ: خُذْ يَا جَابِرُ فَصُبَّ عَلَيَّ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: بِاسْمِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ فَارَتِ الْجَفْنَةُ وَدَارَتْ حَتَّى امْتَلَأَتْ، فَقَالَ يَا جَابِرُ: نَادِ مَنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِمَاءٍ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ، فَاسْتَقَوْا حَتَّى رَوُوا، قَالَ: فَقُلْتُ: هَلْ بَقِيَ أَحَدٌ لَهُ حَاجَةٌ؟، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الْجَفْنَةِ وَهِيَ مَلْأَى،
(حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جابر رضی اللہ عنہ!وضو کے پانی کے لیے آوازدو۔"تو میں نے (ہرجگہ پکار کر) کہا: کیاوضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں ایک قطرہ (پانی) نہیں ملا۔انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پُرانے مشکیزے میں پانی ڈال کراسے کھجور کی ٹہنی (سے بنی ہوئی) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کر تا تھا۔ (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ نے مجھ سے فرمایا"فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پُرانے مشکیزے میں کچھ ہے؟"کہا: میں کیا، اس کے اندر دیکھاتو مجھے اس (مشکیزے) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اگر میں اسے (دوسرے برتن میں) نکالتا تو اس کا خشک حصہ اسے پی لیتا۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس (مشکیزے) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سواکچھ نہیں ملا۔اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔"میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیاکہا اور اس (مشکیزے) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے، پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا: "جابر رضی اللہ عنہ!پانی (پلانے) کا بڑابرتن منگواؤ۔"میں نے آواز دی: سواروں کابڑا برتن (ٹب) لاؤ۔اسے اٹھا کر میرے پاس لا یاگیا تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا، اسے پھیلایا اور اپنی انگیاں الگ الگ کیں پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا: "جابر!میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو!"میں نے اسے آپ (کے ہاتھ) پر انڈیلا اور کہا: بسم اللہ۔میں نے پانی کو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کےدرمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا، پھر وہ بڑا برتن (پانی کے) جوش سے) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا۔یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جابر!جس جس کو پانی کی ضرورت ہے اسے آواز دو۔"کہا: لوگ آئے اور پانی لیا، یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہوگئی، کہا: میں نے اعلان کیا کوئی باقی ہے جسے (پانی کی) ضرورت ہو؟"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ (اسی طرح) بھرا ہوا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!وضو کے پانی کے لیے آوازدو۔"تو میں نے(ہرجگہ پکار کر) کہا:کیاوضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کہا:میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں ایک قطرہ(پانی) نہیں ملا۔انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پُرانے مشکیزے میں پانی ڈال کراسے کھجور کی ٹہنی(سے بنی ہوئی) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کر تا تھا۔(جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا:آپ نے مجھ سے فرمایا"فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پُرانے مشکیزے میں کچھ ہے؟"کہا:میں کیا، اس کے اندر دیکھاتو مجھے اس(مشکیزے) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اگر میں اسے(دوسرے برتن میں) نکالتا تو اس کا خشک حصہ اسے پی لیتا۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس(مشکیزے) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سواکچھ نہیں ملا۔اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔"میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیاکہا اور اس(مشکیزے) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے،پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا:"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!پانی(پلانے) کا بڑابرتن منگواؤ۔"میں نے آواز دی:سواروں کابڑا برتن(ٹب) لاؤ۔اسے اٹھا کر میرے پاس لا یاگیا تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا،اسے پھیلایا اور اپنی انگیاں الگ الگ کیں پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا:"جابر!میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو!"میں نے اسے آپ(کے ہاتھ) پر انڈیلا اور کہا:بسم اللہ۔میں نے پانی کو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کےدرمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا، پھر وہ بڑا برتن(پانی کے) جوش سے) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا۔یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جابر!جس جس کو پانی کی ضرورت ہے اسے آواز دو۔"کہا:لوگ آئے اور پانی لیا،یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہوگئی،کہا: میں نے اعلان کیا کوئی باقی ہے جسے(پانی کی) ضرورت ہو؟"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ(اسی طرح) بھرا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 7520
Save to word اعراب
وشكا الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجوع، فقال: عسى الله ان يطعمكم، فاتينا سيف البحر، فزخر البحر زخرة، فالقى دابة فاورينا على شقها النار، فاطبخنا واشتوينا واكلنا حتى شبعنا، قال جابر: فدخلت انا وفلان وفلان حتى عد خمسة في حجاج عينها ما يرانا احد حتى خرجنا، فاخذنا ضلعا من اضلاعه، فقوسناه ثم دعونا باعظم رجل في الركب، واعظم جمل في الركب، واعظم كفل في الركب فدخل تحته ما يطاطئ راسه ".وَشَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ، فَقَالَ: عَسَى اللَّهُ أَنْ يُطْعِمَكُمْ، فَأَتَيْنَا سِيفَ الْبَحْرِ، فَزَخَرَ الْبَحْرُ زَخْرَةً، فَأَلْقَى دَابَّةً فَأَوْرَيْنَا عَلَى شِقِّهَا النَّارَ، فَاطَّبَخْنَا وَاشْتَوَيْنَا وَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا، قَالَ جَابِرٌ: فَدَخَلْتُ أَنَا وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ حَتَّى عَدَّ خَمْسَةً فِي حِجَاجِ عَيْنِهَا مَا يَرَانَا أَحَدٌ حَتَّى خَرَجْنَا، فَأَخَذْنَا ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَقَوَّسْنَاهُ ثُمَّ دَعَوْنَا بِأَعْظَمِ رَجُلٍ فِي الرَّكْبِ، وَأَعْظَمِ جَمَلٍ فِي الرَّكْبِ، وَأَعْظَمِ كِفْلٍ فِي الرَّكْبِ فَدَخَلَ تَحْتَهُ مَا يُطَأْطِئُ رَأْسَهُ ".
اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔"پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے، سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور (باہر) پھینک دیا، ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس (کے گوشت) کو پکایا، بھونا، کھایا اور یہ سیر ہوگئے (حضرت جابر نے کہا: میں اور فلاں اور فلاں، انھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے مین گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا) لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کردیا، پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو منگوایا، شخص سر جھکا ئے بغیر اس پسلی کے نیچے داخل ہوگیا۔
اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔"پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے،سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور(باہر) پھینک دیا،ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس(کے گوشت) کو پکایا، بھونا،کھایا اور یہ سیر ہوگئے(حضرت جابر نے کہا:میں اور فلاں اور فلاں،انھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے مین گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا)لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کردیا،پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو لیا،سو وہ اس کے نیچے سرجھکائے بغیر چلاگیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.