(حديث موقوف) قال ابو عبد الرحمن : وجاء ثلاثة نفر إلى عبد الله بن عمرو بن العاص ، وانا عنده، فقالوا يا ابا محمد: إنا والله ما نقدر على شيء، لا نفقة، ولا دابة، ولا متاع، فقال لهم: ما شئتم إن شئتم رجعتم إلينا، فاعطيناكم ما يسر الله لكم، وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان، وإن شئتم صبرتم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة إلى الجنة باربعين خريفا "، قالوا: فإنا نصبر لا نسال شيئا.(حديث موقوف) قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالُوا يَا أَبَا مُحَمَّدٍ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، لَا نَفَقَةٍ، وَلَا دَابَّةٍ، وَلَا مَتَاعٍ، فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا، فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا "، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا.
ابو عبد الرحمان نے کہا: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے: ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان (وہ لوگ واقعتاًفقیر تھے) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔ (وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا) اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔
ابو عبد الرحمان بیان کرتےہیں:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے:ابو محمد!اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے۔اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے۔(وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا)اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے۔ان(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:ہم صبر کریں گے۔کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7463
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: چالیس سال کا عددتعیین اور تحدید کے لیے نہیں، محض طویل مدت بیان کرنے کے لیے ہے، اس لیے بعض روایات میں پانچ سوسال کا عرصہ آیا ہے، یا صحابہ کرام کے فقراء اور اغنیاء کا فرق چالیس کا ہوگا اور عام فقراء اور مالداروں کا پانچ سوسال کا، کیونکہ مال دار اپنے مال ومتاع اور آسائش و آرام کا حساب کتاب دینے کے لیے روک لیے جائیں گے، جبکہ فقراء کا لمبا چوڑا محاسبہ نہیں ہوگا اور ظاہر ہے عام اغنیاء اور صحابہ اغنیاء کے درمیان حسن عمل اور اخلاص کے اعتبار سے بہت زیادہ فرق ہے۔