حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا همام ، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، حدثني عبد الرحمن بن ابي عمرة ، ان ابا هريرة حدثه انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن ثلاثة في بني إسرائيل ابرص، واقرع، واعمى، فاراد الله ان يبتليهم، فبعث إليهم ملكا، فاتى الابرص، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: لون حسن، وجلد حسن، ويذهب عني الذي قد قذرني الناس، قال: فمسحه، فذهب عنه قذره واعطي لونا حسنا وجلدا حسنا، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: الإبل او قال: البقر شك إسحاق إلا ان الابرص او الاقرع، قال احدهما: الإبل وقال الآخر: البقر، قال: فاعطي ناقة عشراء، فقال: بارك الله لك فيها، قال: فاتى الاقرع، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: شعر حسن، ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب عنه واعطي شعرا حسنا، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: البقر، فاعطي بقرة حاملا، فقال: بارك الله لك فيها، قال: فاتى الاعمى، فقال: اي شيء احب إليك؟، قال: ان يرد الله إلي بصري فابصر به الناس، قال: فمسحه فرد الله إليه بصره، قال: فاي المال احب إليك؟، قال: الغنم، فاعطي شاة والدا، فانتج هذان وولد هذا، قال: فكان لهذا واد من الإبل، ولهذا واد من البقر، ولهذا واد من الغنم، قال: ثم إنه اتى الابرص في صورته وهيئته، فقال رجل مسكين: قد انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا، اتبلغ عليه في سفري؟، فقال: الحقوق كثيرة، فقال له: كاني اعرفك، الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا، فاعطاك الله، فقال: إنما ورثت هذا المال كابرا، عن كابر، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت، قال: واتى الاقرع في صورته، فقال له مثل ما قال لهذا، ورد عليه مثل ما رد على هذا، فقال: إن كنت كاذبا، فصيرك الله إلى ما كنت، قال: واتى الاعمى في صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة، اتبلغ بها في سفري؟، فقال: قد كنت اعمى فرد الله إلي بصري، فخذ ما شئت ودع ما شئت، فوالله لا اجهدك اليوم شيئا اخذته لله، فقال: امسك مالك، فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ، فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْإِبِلُ أَوَ قَالَ: الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَاقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ: الْبَقَرُ، قَالَ: فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْبَقَرُ، فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْغَنَمُ، فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، قَالَ: فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ: قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا، فَأَعْطَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا، عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً، أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ ".
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نےکہا: مجھے عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے حدیث بیان کی، انھیں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے)۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے)۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7431
� تشریح: اس حدیث میں شکرگزار اور ناحق شناس بندہ کا بیان ہے۔ بلکہ اگر غور کیجئے تو یہ حدیث سارے عالم کے حال میں ہے یعنی ہم سب لوگ اول حقیقت میں کچھ نہ تھے جان، مال، صحت، علم، حکومت محض اس کے کرم سے سب کو ملی سو جو ہوشیار ہے وہ اپنی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کا کرم جان کر شکرگزار ہے اور جو احمق ہے وہ اپنی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کے کرم کو بھول کر اپنے سلیقے اور تدبیر اور خاندانی ریاست پر مغرور ہے وہ اللہ سے دور ہے۔ [تحفته الاخيار]
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7431
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7431
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) قذر: نفرت اور کراہت کی۔ (2) ناقةعشرا: دس ماہ کی گابھن اونٹنی۔ (3) شاة والدا: بچے والی بکری، یعنی جو بچہ جننے کے بالکل قریب تھی، جننا ہی چاہتی تھی۔ (4) انتج هذان: ان دونوں یعنی اونٹنی اور گائے والے کوان کا پھل ملا۔ (5) ولدهذا: اس اندھے سے بچہ حاصل کیا۔ (6) حبال: حبل کی جمع ہے، اسباب وذرائع سفر مراد ہیں، (7) اتبلغ عليه: اس کو(بلغه كفايت) بناسکوں، اس پر اکتفا کروں۔ (8) كابراعن كبر، ہربڑا صاحب عزت وشرف، اپنے بڑے کا وارث بنتا آرہاہے، (9) لا اجهدك: تمہیں مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالوں گا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جب انسان اپنی اصلیت بھول جاتا ہے، اپنے ماضی کو نظرانداز کرکے ڈینگوں اور فخرو مباہات کا شکار ہوکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں تو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ہوں، تو اس کے لیے اللہ کی راہ میں جینا مشکل ہو جاتا ہے اور بسااوقات وہ ناشکر گزاری کی بھینٹ چڑھ کر سب کچھ سے محروم ہو جاتا ہے، لیکن جو انسان اپنے ماضی کو یاد رکھتا ہے، وہ اللہ کا شکر گزار رہتا ہے اور لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ کے مثردہ جانفزا سے متمتع ہوتا ہے، اللہ اپنا شکر گزار بننے کی توفیق بخشے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7431
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3464
3464. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تجھے کیا چیز پیاری ہے؟ اس نےکہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔“ آپ نے فرمایا: ”فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا اور اسے اچھے رنگ کے ساتھ خوبصورت جلد عنایت ہو گئی۔ پھر فرشتے نے کہا: تجھے کون سامال پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کہا۔ راوی کو شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا تھا، تاہم اسےدس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: مجھ سے یہ گنجا پن جاتا رہے اور میرے خوبصورت بال ہوں کیونکہ لوگ مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3464]
حدیث حاشیہ: آیت قرآنی ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾(ابراهيم: 7) اگر میرا شکر کروگے تونعمت زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تومیرا عذاب بھی سخت ہے، اس آیت کی تفسیر اس حدیث سے بخوبی واضح ہے۔ روایت کےآخر میں نابینا کےالفاظ لاأجھدك منقول ہیں توکتنی بھی بکریاں لےلے میں تجھ سےواپس نہیں مانگوں کابعض نسخوں میں لا أحمدك ہےپھر ترجمہ یوں ہوگا میں تیری تعریف اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک تجھے دركار ہے وہ اللہ کےنام پرنہ لےلے گا۔ انسان کی فطرت ہےوہ بہت جلد اپنی تعریف اس وقت تک نہیں گا جب تک جو تجھے دركار ہے وہ اللہ کےنام پرنہ لےلےگا۔ انسان کا فطرت ہےوہ بہت جلد اپنی پہلی حالت کوبھول جاتا ہے، خاص طور پرمال ودولت والے جوبیشتر غریب ہوتے ہیں پھر وہ دولت مند بن جاتے ہیں اور پھول جاتےہیں کہ وہ پہلے کیا تھے۔ ایسے لوگوں کوخدا سے ڈرنا چاہیے جو اللہ دولت دینے پرقادر ہے، وہ واپس لینے پربھی اسی طرح قادر ہے اور یہ روزانہ ہوتا رہتا دیکھنے کونظر بصیرت درکارہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3464
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3464
3464. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تجھے کیا چیز پیاری ہے؟ اس نےکہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔“ آپ نے فرمایا: ”فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا اور اسے اچھے رنگ کے ساتھ خوبصورت جلد عنایت ہو گئی۔ پھر فرشتے نے کہا: تجھے کون سامال پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کہا۔ راوی کو شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا تھا، تاہم اسےدس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: مجھ سے یہ گنجا پن جاتا رہے اور میرے خوبصورت بال ہوں کیونکہ لوگ مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3464]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کفران نعمت سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس کا انجام نعمت کا چھن جانا ہے جیسا کہ کوڑھی اور گنجے کا حشر ہوا۔ ہمیں اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے رہنا پھر ان کا شکر بجا لاتے رہنا چاہئے کیونکہ اس طرح خیرو برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”اور جب تمھارے رب نے اعلان کیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں ضرور اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی شدید ہے۔ “(ابراہیم: 14/7) 2۔ اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے گنجے پن کا علاج اگر حقیقی بالوں کے اگانے سے کیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ ایک علاج کی صورت ہے لیکن اگر منصوعی بالوں کی پیوندکاری سے کیا جائے یا اس کی جدید صورت وگ وغیرہ استعمال کی جائے تو اس کی شرعاً ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کرنے والے پر لعنت کی ارشاد نبوی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بالوں کی پیوندکاری کرنے والے اور کروانے والی پر لعنت کی ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5933) بہرحال جدید طب نے دور حاضر میں ان بالوں کی پیوندکاری کے ذریعے سے گنجے پن کا علاج دریافت کیا ہے اگرچہ یہ علاج بہت مہنگا ہے تاہم اس میں شرعاً کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ 3۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی پہلی حالت کو بھول جاتا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو پہلے غریب ہوتے ہیں پھر کسی اتفاقی حادثے کی صورت میں مال دار بن جاتے ہیں وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہماری اصلیت کیا تھی؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ جو اللہ تعالیٰ دولت دینے پر قادر ہے وہ اسے واپس لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے مذکورہ واقعے میں یہی درس عبرت دیا گیا ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3464