والدليل ان هاتين السجدتين إنما يسجدهما المصلي بعد السلام لا قبل وَالدَّلِيلِ أَنَّ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ إِنَّمَا يَسْجُدُهُمَا الْمُصَلِّي بَعْدَ السَّلَامِ لَا قَبْلُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نمازی یہ دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد کرے گا، پہلے نہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سہ پہر کی دو نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد (کے قبلے) میں آڑی ترچھی پڑی ہوئی لکڑی کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ ٹیک لگائی۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ (اسی دوران میں) جلد باز لوگ مسجد کے دروازوں سے نکل گئے۔ اور (آپس میں) کہنے لگے کہ نماز کم ہوگئی ہے۔ حالانکہ لوگوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے مگر وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر نے سے ڈر گئے۔ لوگوں میں لمبےلمبے ہاتھوں والا ایک آدمی بھی تھا۔ جسے ذوالیدین کہا جاتا تھا، اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں یا نماز کم ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا: ”کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی کہ جی ہاں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور چھوڑی ہوئی نماز ادا کی، پھر سلام پھیرا، پھر ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر اپنے سجدوں جیسا یا اس سے طویل سجدہ کیا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا، پھر ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر اپنے سجدوں جیسا سجدہ یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا اور ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہا۔ (ابن عون) راوی کہتے ہیں کہ بسا اوقات شاگردوں نے (ابن سیرین سے) کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو (ابن سیرین نے) فرمایا کہ مجھے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے خبر ملی ہے کہ انہوں نے (اپنی روایت میں) فرمایا: ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔“(یہ الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت میں نہیں ہیں اس لیے ابن سیرین نے شاگردوں کے استفسار پر حضرت عمران سے یہ الفاظ بیان کیے) یہ جناب صنعانی کی روایت کے الفاظ ہیں۔
نا عيسى بن إبراهيم الغافقي ، حدثنا ابن وهب ، حدثني عمرو بن الحارث ، حدثني قتادة بن دعامة ، عن ابن سيرين ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مثله يعني انه سجد سجدتي السهو يوم جاءه ذو اليدين بعد التسليم. قال ابو بكر: خبر ابن سيرين عن ابي هريرة دال على إغفال من زعم ان هذه القصة كانت قبل نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الكلام في الصلاة، ومن فهم العلم، وتدبر اخبار النبي صلى الله عليه وسلم، والفاظ رواة هذا الخبر، علم ان هذا القول جهل من قائله في خبر ابن سيرين، عن ابي هريرة، صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهكذا رواه مالك بن انس، عن داود بن الحصين، عن ابي سفيان مولى بني احمد، عن ابي هريرة، قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلمنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنِي قَتَادَةُ بْنُ دِعَامَةَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ يَعْنِي أَنَّهُ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ يَوْمَ جَاءَهُ ذُو الْيَدَيْنِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ دَالٌ عَلَى إِغْفَالِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ هَذِهِ الْقِصَّةَ كَانَتْ قَبْلَ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ، وَمَنْ فَهِمَ الْعِلْمَ، وَتَدَبَّرَ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَلْفَاظَ رُوَاةِ هَذَا الْخَبَرِ، عَلِمَ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ جَهْلٌ مِنْ قَائِلِهِ فِي خَبَرِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَكَذَا رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى بَنِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا حدیث کی مثل روایت بیان کرتے ہیں۔ یعنی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے کیے جس دن سلام پھیرنے کے بعد ذوالیدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدم میں حاضر ہوا تھا (اور نماز میں کمی کی اطلاع دی تھی) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابن سیرین کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اس شخص کی غفلت پر دلالت کرتی ہے جس کا خیال ہے کہ یہ قصّہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں کلام کرنے کی ممانعت سے پہلے کا ہے اور جو شخص علمی سوجھ بوجھ رکھتا ہو اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اس حدیث کے راویوں کے الفاظ میں غور و فکر کیا ہو وہ جان لیتا ہے کہ یہ بات کہنے والے کی جہالت پر مبنی ہے۔ جناب ابن سیرین کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔“ اسی طرح امام مالک بن انس رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت بنی ابی احمد کے آزاد کر دہ غلام جناب ابوسفیان کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ اس میں ”صلی بنا“ کی بجائے ”صلی لنا“ کے الفاظ ہیں (مطلب ایک ہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔)
بنی ابی احمد کے آزاد کردہ غلام جناب ابوسفیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی تو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا۔ تو ذوالیدین نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول، کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔“ تو اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کچھ بات تو یقیناً ہوئی ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہا ہے؟“ تو صحابہ نے عرض کی کہ جی ہاں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ نماز مکمّل کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد (تشہد میں) بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔
قال ابو بكر: وهكذا رواه ابان بن يزيد العطار، عن يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم فذكر القصة. ثناه محمد بن يحيى ، نا مسلم بن إبراهيم ، حدثنا ابان بن يزيد ، قال ابو بكر: فابو هريرة يخبر انه شهد هذه الصلاة مع النبي صلى الله عليه وسلم التي فيها هذه القصة، فكيف تكون قصة ذي اليدين هذه قبل نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الكلام في الصلاة؟ وابن مسعود يخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم اعلمه عند رجوعه من ارض الحبشة لما سلم على النبي صلى الله عليه وسلم، ان مما احدث الله ان لا يتكلموا في الصلاة، ورجوع ابن مسعود من ارض الحبشة كان قبل وقعة بدر، إذ ابن مسعود قد كان شهد بدرا، وادعى انه قتل ابا جهل بن هشام يومئذ، قد امليت هذه القصة في كتاب الجهاد، وابو هريرة إنما قدم المدينة بعد بدر بسنين، قدم المدينةقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَكَذَا رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ. ثناهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَبُو هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الصَّلاةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِيهَا هَذِهِ الْقِصَّةُ، فَكَيْفَ تَكُونُ قِصَّةُ ذِي الْيَدَيْنِ هَذِهِ قَبْلَ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ؟ وَابْنُ مَسْعُودٍ يُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ عِنْدَ رُجُوعِهِ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ لَمَّا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ مِمَّا أَحْدَثَ اللَّهُ أَنْ لا يَتَكَلَّمُوا فِي الصَّلاةِ، وَرُجُوعُ ابْنِ مَسْعُودَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ كَانَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، إِذِ ابْنُ مَسْعُودٍ قَدْ كَانَ شَهِدَ بَدْرًا، وَادَّعَى أَنَّهُ قَتَلَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَوْمَئِذٍ، قَدْ أَمْلَيْتُ هَذِهِ الْقِصَّةَ فِي كِتَابِ الْجِهَادِ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّمَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ بَدْرٍ بِسِنِينَ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ
امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح یہ روایت ابان بن یزید العطار نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے سیدنا ابوسلمہ کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ پھر پورا قصّہ بیان کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، جس میں یہ قصّہ ہے۔ لہٰذا ذوالیدین کا یہ قصّہ نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو منع کر نے سے پہلے کا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بتا رہے کہ ہیں کہ جب انہوں نے ملک حبشہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (حالت نماز میں) سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے نیا حُکم دے دیا ہے کہ نمازی نماز کے دوران میں بات چیت نہ کیا کریں۔ اور سر زمین حبشہ سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی واپسی جنگ بدر سے پہلے ہوئی تھی کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور اُنہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے اسی دن ابوجہل بن ہشام کو قتل کیا تھا۔ میں نے یہ قصّہ کتاب الجہاد میں بیان کیا ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے کئی سال بعد مدینہ منوّرہ تشریف لائے ہیں۔ جب وہ مدینہ آئے تھے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ خیبر کے لئے) خیبر میں تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں سیدنا سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔
والنبي صلى الله عليه وسلم بخيبر، وقد استخلف على المدينة سباع بن عرفطة الغفاريوَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ، وَقَدِ اسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِيَّ
جناب عراک بن مالک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رواہت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں اس وقت مدینہ آیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے - اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں سیدنا سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ (مصنف کہتے ہیں) میں نے یہ روایت اس کے علاوہ مقام پر بھی بیان کی۔ جبکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خیبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری کے متعلق کتاب الجہاد میں، میں نے روایت بیان کی ہے۔
انا ابو عمار ، نا الفضل بن موسى ، نا خثيم بن عراك بن مالك ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قدمت المدينة والنبي صلى الله عليه وسلم بخيبر، وقد استخلف على المدينة سباع ابن عرفطة. قد خرجت هذا الخبر في غير هذا الموضع، وخرجت قدومه على النبي صلى الله عليه وسلم بخيبر في كتاب الجهاد وقال وقال إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، سمعت ابا هريرة ، يقول: " صحبت النبي صلى الله عليه وسلم ثلاث سنوات" ، ثناه بندار، نا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل بن ابي خالد. وابو هريرة إنما صحب النبي صلى الله عليه وسلم بخيبر وبعده، وهو يخبر انه شهد هذه الصلاة مع النبي صلى الله عليه وسلم، فمن يزعم ان خبر ابن مسعود ناسخ لقصة ذي اليدين لو تدبر العلم وترك العناد ولم يكابر عقله علم استحالة هذه الدعوى، إذ محال ان يكون المتاخر منسوخا، والمتقدم ناسخا، وقصة ذي اليدين بعد نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الكلام في الصلاة بسنين، فكيف يكون المتاخر منسوخا والمتقدم ناسخا، على ان قصة ذي اليدين ليس من نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الكلام في الصلاة بسبيل، وليس هذا من ذلك الجنس، إذ الكلام في الصلاة على العمد من المصلي مباح، والمصلي عالم مستيقن انه في الصلاة فنسخ ذلك، وزجروا ان يتعمدوا الكلام في الصلاة على ما كان قد ابيح لهم قبل، لا انه كان ابيح لهم ان يتكلموا في الصلاة ساهين ناسين لا يعلمون انهم في الصلاة فنسخ ذلك وهل يجوز للمركب فيه العقل، يفهم ادنى شيء من العلم ان، يقول: زجر الله المرء إذا لم يعلم انه في الصلاة ان يتكلم، او يقول نهى الله المرء ان يتكلم في الصلاة وهو لا يعلم ان الله قد زجر عن الكلام في الصلاة، وإنما يجب على المرء ان لا يتكلم في الصلاة بعد علمه ان الكلام في الصلاة محظور غير مباح. ومعاوية بن الحكم السلمي إنما تكلم وهو لا يعلم ان الكلام في الصلاة محظور، فقال في الصلاة خلف النبي صلى الله عليه وسلم لما شمت العاطس، ورماه القوم بابصارهم، واثكل امياه، ما لكم تنظرون إلي، فلما تكلم في الصلاة بهذا الكلام، وهو لا يعلم ان هذا الكلام محظور في الصلاة علمه صلى الله عليه وسلم ان كلام الناس في الصلاة محظور غير جائز، ولم يامره صلى الله عليه وسلم بإعادة تلك الصلاة التي تكلم فيها بهذا الكلام، والنبي صلى الله عليه وسلم في قصة ذي اليدين إنما تكلم على انه في غير الصلاة، وعلى انه قد ادى فرض الصلاة بكماله، وذو اليدين كلم النبي صلى الله عليه وسلم، وهو غير عالم انه قد بقي عليه بعض الفرض إذ جائز عنده ان يكون الفرض قد رد إلى الفرض الاول إلى ركعتين، كما كان في الابتداء الا تسمعه، يقول للنبي صلى الله عليه وسلم: اقصرت الصلاة ام نسيت؟ فاجابه النبي صلى الله عليه وسلم بانه لم ينس ولم تقصر، وهو عند نفسه في ذلك الوقت غير مستيقن انه قد بقي عليه بعض تلك الصلاة فاستثبت اصحابه، وقال لهم: اكما يقول ذو اليدين، فلما استيقن انه قد بقي عليه ركعتان من تلك الصلاة قضاهما فلم يتكلم صلى الله عليه وسلم في هذه القصة بعد علمه ويقينه بانه قد بقي عليه بعض تلك الصلاة، فاما اصحابه الذين اجابوه وقالوا للنبي صلى الله عليه وسلم بعد مسالته إياهم: اكما يقول ذو اليدين؟ قالوا: نعم، فهذا كان الجواب المفروض عليهم ان يجيبوه عليه السلام، وإن كانوا في الصلاة عالمين مستيقنين انهم في نفس فرض الصلاة إذ الله عز وجل فرق بين نبيه المصطفى وبين غيره من امته بكرمه له وفضله بان اوجب على المصلين ان يجيبوه وإن كانوا في الصلاة في قوله: يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24، وقد قال المصطفى صلى الله عليه وسلم لابي بن كعب، ولابي سعيد بن المعلى لما دعا كل واحد منهما على الانفراد، وهو في الصلاة فلم يجبه حتى فرغ من الصلاة: الم تسمع فيما انزل علي او نحو هذه اللفظة يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24، قد خرجت هذين الخبرين في غير هذا الموضع، فبين اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في كلامهم الذي تكلموا به يوم ذي اليدين، وكلام ذي اليدين على الصفة التي تكلم بها، وبين من بعدهم فرق في بعض الاحكام، اما كلام ذي اليدين في الابتداء فغير جائز لمن كان بعد النبي صلى الله عليه وسلم ان يتكلم بمثل كلام ذي اليدين، إذ كل مصل بعد النبي صلى الله عليه وسلم إذا سلم في الركعتين من الظهر او العصر يعلم ويستيقن انه قد بقي عليه ركعتان من صلاته إذ الوحي منقطع بعد النبي صلى الله عليه وسلم، ومحال ان ينتقص من الفرض بعد النبي صلى الله عليه وسلم، فكل متكلم يعلم ان فرض الظهر والعصر اربعا، كل واحد منهما على الانفراد، إذا تكلم بعد ما قد صلى ركعتين، وبقيت عليه ركعتان عالم مستيقن بان كلامه ذلك محظور عليه، منهي عنه، وانه متكلم قبل إتمامه فرض الصلاة، ولم يكن ذو اليدين لما سلم النبي صلى الله عليه وسلم من الركعتين عالما، ولا مستيقنا بانه قد بقي عليه بعض الصلاة، ولا كان عالما ان الكلام محظور عليه، إذ كان جائز عنده في ذلك الوقت ان يكون فرض تلك الصلاة قد رد إلى الفرض الاول إلى ركعتين كما كان في الابتداء، وقوله في مخاطبته النبي صلى الله عليه وسلم دال على هذا، الا تسمعه يقول للنبي صلى الله عليه وسلم: اقصرت الصلاة ام نسيت؟ وقد بينت العلة التي لها تكلم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بعد قول النبي صلى الله عليه وسلم لذي اليدين: لم انس، ولم تقصر، واعلمت ان الواجب المفترض عليهم كان ان يجيبوا النبي صلى الله عليه وسلم وإن كانوا في الصلاة، وهذا الفرض اليوم ساقط غير جائز لمسلم ان يجيب احدا، وهو في الصلاة بنطق، فكل من تكلم بعد انقطاع الوحي فقال لمصل قد سلم من ركعتين اقصرت الصلاة ام نسيت؟ فواجب عليه إعادة تلك الصلاة إذا كان عالما ان فرض تلك الصلاة اربع لا ركعتان، وكذاك يجب على كل من تكلم وهو مستيقن بانه لم يؤد فرض تلك الصلاة بكماله، فتكلم قبل ان يسلم منها في ركعتين، او بعدما سلم في ركعتين، وكذاك يجب على كل من اجاب إنسانا وهو في الصلاة إعادة تلك الصلاة، إذ الله عز وجل لم يجعل لبشر ان يجيب في الصلاة احدا في الصلاة غير النبي صلى الله عليه وسلم، الذي خصه الله بها، وهذه مسالة طويلة، قد خرجتها بطولها مع ذكر احتجاج بعض من اعترض على اصحابنا في هذه المسالة، وابين قبح ما احتجوا على اصحابنا في هذه المسالة من المحال وما يشبه الهذيان، إن وفقنا اللهأنا أَبُو عَمَّارٍ ، نَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، نَا خُثَيْمُ بْنُ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ، وَقَدِ اسْتُخْلِفَ عَلَى الْمَدِينَةِ سِبَاعُ ابْنُ عُرْفُطَةَ. قَدْ خَرَّجْتُ هَذَا الْخَبَرَ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، وَخَرَّجْتُ قُدُومَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ فِي كِتَابِ الْجِهَادِ وَقَالَ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَ سَنَوَاتٍ" ، ثناهُ بُنْدَارٌ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ. وَأَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ وَبَعْدَهُ، وَهُوَ يُخْبِرُ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الصَّلاةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ يَزْعُمُ أَنَّ خَبَرَ ابْنَ مَسْعُودٍ نَاسِخٌ لِقِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ لَوْ تَدَبَّرَ الْعِلْمَ وَتَرَكَ الْعِنَادَ وَلَمْ يُكَابِرْ عَقْلُهُ عَلِمَ اسْتِحَالَةَ هَذِهِ الدَّعْوَى، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يَكُونَ الْمُتَأَخِّرُ مَنْسُوخًا، وَالْمُتَقَدِّمُ نَاسِخًا، وَقِصَّةُ ذِي الْيَدَيْنِ بَعْدَ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ بِسِنِينَ، فَكَيْفَ يَكُونُ الْمُتَأَخِّرُ مَنْسُوخًا وَالْمُتَقَدِّمُ نَاسِخًا، عَلَى أَنَّ قِصَّةَ ذِي الْيَدَيْنِ لَيْسَ مِنْ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ بِسَبِيلٍ، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَلِكَ الْجِنْسِ، إِذِ الْكَلامُ فِي الصَّلاةِ عَلَى الْعَمْدِ مِنَ الْمُصَلِّي مُبَاحٌ، وَالْمُصَلِّيَ عَالِمٌ مُسْتَيْقِنٌ أَنَّهُ فِي الصَّلاةِ فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَزُجِرُوا أَنْ يَتَعَمَّدُوا الْكَلامَ فِي الصَّلاةِ عَلَى مَا كَانَ قَدْ أُبِيحَ لَهُمْ قَبْلُ، لا أَنَّهُ كَانَ أُبِيحَ لَهُمْ أَنْ يَتَكَلَّمُوا فِي الصَّلاةِ سَاهِينَ نَاسِينَ لا يَعْلَمُونَ أَنَّهُمْ فِي الصَّلاةِ فَنُسِخَ ذَلِكَ وَهَلْ يَجُوزُ لِلْمُرَكَّبُ فِيهِ الْعَقْلُ، يَفْهَمُ أَدْنَى شَيْءٍ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: زَجَرَ اللَّهُ الْمَرْءَ إِذَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ فِي الصَّلاةِ أَنْ يَتَكَلَّمَ، أَوْ يَقُولُ نَهَى اللَّهُ الْمَرْءَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي الصَّلاةِ وَهُوَ لا يَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ زَجَرَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ، وَإِنَّمَا يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ أَنْ لا يَتَكَلَّمَ فِي الصَّلاةِ بَعْدَ عِلْمِهِ أَنَّ الْكَلامَ فِي الصَّلاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ مُبَاحٍ. وَمُعَاوِيَةُ بْنُ الْحَكَمِ السُّلَمِيُّ إِنَّمَا تَكَلَّمَ وَهُوَ لا يَعْلَمُ أَنَّ الْكَلامَ فِي الصَّلاةِ مَحْظُورٌ، فَقَالَ فِي الصَّلاةِ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا شَمَّتَ الْعَاطِسَ، وَرَمَاهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ فِي الصَّلاةِ بِهَذَا الْكَلامِ، وَهُوَ لا يَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْكَلامَ مَحْظُورٌ فِي الصَّلاةِ عَلَّمَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ كَلامَ النَّاسِ فِي الصَّلاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ جَائِزٍ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِعَادَةِ تِلْكَ الصَّلاةِ الَّتِي تَكَلَّمَ فِيهَا بِهَذَا الْكَلامِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ إِنَّمَا تَكَلَّمَ عَلَى أَنَّهُ فِي غَيْرِ الصَّلاةِ، وَعَلَى أَنَّهُ قَدْ أَدَّى فَرْضَ الصَّلاةِ بِكَمَالِهِ، وَذُو الْيَدَيْنِ كَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ غَيْرُ عَالِمٍ أَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْفَرْضِ إِذْ جَائِزٌ عِنْدَهُ أَنْ يَكُونَ الْفَرْضُ قَدْ رُدَّ إِلَى الْفَرْضِ الأَوَّلِ إِلَى رَكْعَتَيْنِ، كَمَا كَانَ فِي الابْتِدَاءِ أَلا تَسْمَعُهُ، يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَمْ نَسِيتَ؟ فَأَجَابَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّهُ لَمْ يَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ، وَهُوَ عِنْدَ نَفْسِهِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ غَيْرُ مُسْتَيْقِنٍ أَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ تِلْكَ الصَّلاةِ فَاسْتَثْبَتَ أَصْحَابَهُ، وَقَالَ لَهُمْ: أَكَمَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَنَ أَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ رَكْعَتَانِ مِنْ تِلْكَ الصَّلاةِ قَضَاهُمَا فَلَمْ يَتَكَلَّمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ بَعْدَ عِلْمِهِ وَيَقِينِهِ بِأَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ تِلْكَ الصَّلاةِ، فَأَمَّا أَصْحَابُهُ الَّذِينَ أَجَابُوهُ وَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَسْأَلَتِهِ إِيَّاهُمْ: أَكَمَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَهَذَا كَانَ الْجَوَابُ الْمَفْرُوضُ عَلَيْهِمْ أَنْ يُجِيبُوهُ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَإِنَّ كَانُوا فِي الصَّلاةِ عَالِمِينَ مُسْتَيْقِنِينَ أَنَّهُمْ فِي نَفْسِ فَرْضِ الصَّلاةِ إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَرَّقَ بَيْنَ نَبِيِّهِ الْمُصْطَفَى وَبَيْنَ غَيْرِهِ مِنْ أُمَّتِهِ بِكَرَمِهِ لَهُ وَفَضْلِهِ بِأَنْ أَوْجَبَ عَلَى الْمُصَلِّينَ أَنْ يُجِيبُوهُ وَإِنْ كَانُوا فِي الصَّلاةِ فِي قَوْلِهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، وَقَدْ قَالَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَلأَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى لَمَّا دَعَا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى الانْفِرَادِ، وَهُوَ فِي الصَّلاةِ فَلَمْ يُجِبْهُ حَتَّى فَرَغَ مِنَ الصَّلاةِ: أَلَمْ تَسْمَعْ فِيمَا أُنْزِلَ عَلَيَّ أَوْ نَحْوَ هَذِهِ اللَّفْظَةِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، قَدْ خَرَّجْتُ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، فَبَيْنَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَلامِهِمُ الَّذِي تَكَلَّمُوا بِهِ يَوْمَ ذِي الْيَدَيْنِ، وَكَلامُ ذِي الْيَدَيْنِ عَلَى الصِّفَةِ الَّتِي تَكَلَّمَ بِهَا، وَبَيْنَ مَنْ بَعْدَهُمْ فَرْقٌ فِي بَعْضِ الأَحْكَامِ، أَمَّا كَلامُ ذِي الْيَدَيْنِ فِي الابْتِدَاءِ فَغَيْرُ جَائِزٍ لِمَنْ كَانَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِمِثْلِ كَلامِ ذِي الْيَدَيْنِ، إِذْ كُلُّ مُصَلٍّ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ يَعْلَمُ وَيَسْتَيْقِنُ أَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ رَكْعَتَانِ مِنْ صَلاتِهِ إِذِ الْوَحْيُ مُنْقَطِعٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُحَالٌ أَنْ يُنْتَقَصَ مِنَ الْفَرْضِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلُّ مُتَكَلِّمٍ يَعْلَمُ أَنَّ فَرْضَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَرْبَعًا، كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى الانْفِرَادِ، إِذَا تَكَلَّمَ بَعْدَ مَا قَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ رَكْعَتَانِ عَالِمٌ مُسْتَيْقِنٌ بِأَنَّ كَلامَهُ ذَلِكَ مَحْظُورٌ عَلَيْهِ، مَنْهِيٌّ عَنْهُ، وَأَنَّهُ مُتَكَلِّمٌ قَبْلَ إِتْمَامِهِ فَرْضَ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَكُنْ ذُو الْيَدَيْنِ لَمَّا سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ عَالِمًا، وَلا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ الصَّلاةِ، وَلا كَانَ عَالِمًا أَنَّ الْكَلامَ مَحْظُورٌ عَلَيْهِ، إِذْ كَانَ جَائِزٌ عِنْدَهُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ أَنْ يَكُونَ فَرْضُ تِلْكَ الصَّلاةِ قَدْ رُدَّ إِلَى الْفَرْضِ الأَوَّلِ إِلَى رَكْعَتَيْنِ كَمَا كَانَ فِي الابْتِدَاءِ، وَقَوْلُهُ فِي مُخَاطَبَتِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَالٌ عَلَى هَذَا، أَلا تَسْمَعُهُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَمْ نَسِيتَ؟ وَقَدْ بَيَّنْتُ الْعِلَّةَ الَّتِي لَهَا تَكَلَّمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذِي الْيَدَيْنِ: لَمْ أَنْسَ، وَلَمْ تَقْصُرْ، وَأَعْلَمْتُ أَنَّ الْوَاجِبَ الْمُفْتَرَضَ عَلَيْهِمْ كَانَ أَنْ يُجِيبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانُوا فِي الصَّلاةِ، وَهَذَا الْفَرْضُ الْيَوْمَ سَاقِطٌ غَيْرُ جَائِزٍ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُجِيبَ أَحَدًا، وَهُوَ فِي الصَّلاةِ بِنُطْقٍ، فَكُلُّ مَنْ تَكَلَّمَ بَعْدَ انْقِطَاعِ الْوَحْيِ فَقَالَ لِمُصَلٍّ قَدْ سَلَّمَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَمْ نَسِيتَ؟ فَوَاجِبٌ عَلَيْهِ إِعَادَةُ تِلْكَ الصَّلاةِ إِذَا كَانَ عَالِمًا أَنَّ فَرْضَ تِلْكَ الصَّلاةِ أَرْبَعٌ لا رَكْعَتَانِ، وَكَذَاكَ يَجِبُ عَلَى كُلِّ مَنْ تَكَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَيْقِنٌ بِأَنَّهُ لَمْ يُؤَدِّ فَرْضَ تِلْكَ الصَّلاةِ بِكَمَالِهِ، فَتَكَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ مِنْهَا فِي رَكْعَتَيْنِ، أَوْ بَعْدَمَا سَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَكَذَاكَ يَجِبُ عَلَى كُلِّ مَنْ أَجَابَ إِنْسَانًا وَهُوَ فِي الصَّلاةِ إِعَادَةُ تِلْكَ الصَّلاةِ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَجْعَلْ لِبَشَرٍ أَنْ يُجِيبَ فِي الصَّلاةِ أَحَدًا فِي الصَّلاةِ غَيْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِي خَصَّهُ اللَّهُ بِهَا، وَهَذِهِ مَسْأَلَةٌ طَوِيلَةٌ، قَدْ خَرَّجْتُهَا بِطُولِهَا مَعَ ذِكْرِ احْتِجَاجِ بَعْضِ مَنِ اعْتَرَضَ عَلَى أَصْحَابِنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، وَأُبَيِّنُ قُبْحَ مَا احْتَجُّوا عَلَى أَصْحَابِنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِنَ الْمُحَالِ وَمَا يُشْبِهُ الْهَذَيَانَ، إِنْ وَفَّقَنَا اللَّهُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے تین سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جنگ خیبر اور اس کے بعد کے عرصے میں رہے ہیں۔ اور وہ بتا رہے ہیں کہ اُنہوں نے یہ نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی تھی، لہٰذا جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ذوالیدین کے قصّہ کی ناسخ ہے، اگر یہ شخص علم میں غور و فکر کرے، ضد چھوڑدے اور اپنی عقل ہی کو اہمیت و بڑائی نہ دے تو وہ اس دعوے کے ناممکن ہونے کو جان لے گا۔ کیونکہ یہ بات نہ ممکن ہے کہ متاخر حُکم منسوخ ہوا اور متقدم حُکم ناسخ ہو۔ اور ذوالیدین کا قصّہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں گفتگو سے منع کرنے کے کئی سال بعد کا ہے، چنانچہ متاخر حُکم منسوخ اور متقدم حُکم ناسخ کیسے ہو سکتا ہے - جبکہ ذوالیدین کے قصّہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں بات چیت کے منع قرار دینے کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں - اور یہ مسئلہ اس جنس کے ساتھ تعلق بھی نہیں رکھتا، کیونکہ (جس کلام سے منع کیا گیا وہ) جائز کلام تھا جسے نمازی عمداً نماز میں کرتا اور اسے یقینی علم ہوتا ہے کہ وہ نماز کی حالت میں ہے۔ تو یہ کلام منسوخ ہوگیا اور نمازیوں کو روک دیا گیا ہے کہ وہ عمداً نماز کے دوران میں کلام کریں جبکہ پہلے انکے لئے یہ جائز تھا۔ یہ نہیں کہ ان کے لئے نماز میں بھول چوک کی صورت میں گفتگو کرنا جائز قرار دیا گیا تھا، جبکہ انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ حالت نماز میں ہیں، پھر یہ حُکم منسوخ ہوگیا۔ کیا کسی عقل مند شخص، جو معمولی سی علمی سوجھ بوجھ رکھتا ہو، کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نمازی کو بات چیت کرنے سے منع کیا ہے جب کہ اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز کی حالت میں ہے، یا وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے نمازی کو حالت نماز میں بات چیت کرنے سے منع کیا ہے حالانکہ اسے علم ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں گفتگو سے منع کیا ہے ـ بیشک نمازی کو جب علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں کلام کرنا منع کر دیا ہے تو اُس کے لئے واجب ہے کہ وہ نماز میں کلام نہ کرے۔ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ نے (نماز کے دوران میں) گفتگو کی حالانکہ انہیں علم نہیں تھا کہ نماز میں گفتگو کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتے ہوئے چھینک مارنے والے کو جواب دیا (اُسے ”يَرحَمُكَ الله“ کہا) اور نمازیوں نے اُنہیں گھورنا شروع کر دیا، تو اُنہوں نے کہا کہ ہائے میری ماں مجھے روئے تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ چنانچہ جب انہوں نے دوران نماز میں یہ کلام کی حالانکہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ نماز کی حالت میں ایسا کلام کرنا منع ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکھایا کہ نماز میں لوگوں سے ہم کلامی ممنوع اور ناجائز ہے - مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس نماز کو دوبارہ پڑھنے کا حُکم نہیں دیا جس میں انہوں نے یہ کلام کی تھی - جبکہ ذوالیدین کے قصّہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنا پر کلام کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمّل فرض نماز ادا کرچکے تھے اور حالت نماز میں نہیں تھے۔ اور ذوالیدین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پر کچھ فرض نماز ابھی باقی ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک یہ ممکن تھا کہ فرض نماز پہلے کی طرح دو رکعت کر دی گئی ہو جیسا کہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ کیا تم اسے یہ کہتے ہوئے نہیں سنتے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتا ہے کہ کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا کہ ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔“ حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ نماز باقی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے تحقیق کی اور ان سے پوچھا: ”کیا معاملہ اسی طرح ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہا ہے؟“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کی دو رکعتیں باقی رہ گئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ادا کیا۔ چنانچہ اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم و یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ نماز باقی رہ گئی ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید گفتگو نہیں کی۔ البتہ صحابہ کرام کی گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”کیا معاملہ اسی طرح ہے جس طرح ذوالیدین کہہ رہا ہے؟“ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پر) ان کا جواب دینا فرض تھا اگرچہ وہ نماز کی حالت میں ہی ہوں، اور انہیں اپنے نماز کی حالت میں ہونے کا پورا علم و یقین بھی ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کی بنا پر اپنے نبی مصطفیٰ اور دیگر لوگوں میں فرق رکھا ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نمازیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنا واجب قرار دیا ہے اگرچہ وہ نماز ہی پڑھ رہے ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» [ سورة الأنفال: 24 ]”اے ایمان والو، تم اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانو جب وہ تمہیں اس (امر) کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب اور ابوسیعد بن معلیٰ رضی اللہ عنہما سے فرمایا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو الگ الگ بلایا تھا اور وہ نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے نماز سے فارغ ہونے تک آپ کی پکار کا جواب نہیں دیا تھا: کیا تم نے وہ حُکم نہیں سنا جو مجھ پر نازل کیا گیا ہے - یا آپ تعالیٰ نے اس قسم کے الفاظ فرمائے۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» ”اے ایمان والوں، اللہ اور اسکے رسول کی بات مانو جب وہ تمہیں اس (بات) کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتی ہے۔“ میں نے یہ دو احادیث اس جگہ کے علاوہ دوسرے مقام پر بھی بیان کی ہیں۔ ذوالیدین والے دن نبی کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں اور ذوالیدین کی گفتگو میں جس انداز سے انہوں نے گفتگو کی اور ان کے بعد والے لوگوں کی کلام میں بعض احکام کا فرق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (اس دنیا سے تشریف لے جانے کے) بعد کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ ذوالیدین کی طرح کلام کرے جیسا کہ انہوں نے ابتدا میں کلام کیا - کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر نمازی جب ظہر یا عصر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے گا تو اسے بخوبی علم و یقین ہو گا کہ ابھی اس کی نماز سے دو رکعتیں باقی ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اور یہ نا ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فرض نماز میں کمی واقع ہو۔ لہٰذا ہر بات کرنے والا جانتا ہے کہ ظہر اور عصر کی چار چار رکعات فرض ہیں۔ جب وہ دو رکعتوں کے بعد کلام کرے گا۔ اور دو رکعتیں ابھی باقی ہونگی تو اسے مکمّل یقین ہو گا کہ اس کا یہ بات چیت کرنا اس کے لئے حرام اور منع ہے۔ اور وہ فرض نماز مکمّل کرنے سے پہلے بات چیت کر رہا ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تو ذوالیدین کو معلوم نہیں تھا اور نہ اسے یہ یقین تھا کہ اس کی کچھ نماز ابھی باقی ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس حال میں گفتگو کرنا اس کے لئے ممنوع ہے، کیونکہ اس کے نزدیک یہ ممکن تھا کہ اس وقت نماز کا فریضہ ابتدائے اسلام کی طرح دو رکعت فرض کی طرف لوٹ گیا ہو گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو اس بات کی واضح دلیل ہے۔ کیا تم نے سنا نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہا ہے کہ کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوالیدین کو یہ جواب دینے ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے“ کے بعد صحابہ کرام کی گفتگو کی وجہ اور علت میں بیان کر چکا ہوں۔ اور میں نے بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر جواب دیتے اگرچہ وہ حالت نماز ہی میں ہوتے۔ آج یہ فرض ساقط ہو چکا ہے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ گفتگو کرکے کسی کو جواب دے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو۔ لہٰذہ جس شخص نے بھی وحی کے منقطع ہونے کے بعد، کسی نمازی کو، جس نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، کہا کہ کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو اس پر اس نماز کو دہرانا واجب ہے جبکہ اسے علم ہو کہ یہ نماز چار رکعت ہے دو رکعت نہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے گفتگو کی جبکہ اسے یقین تھا کہ اس نے مکمّل فریضہ ابھی ادا نہیں کیا - پھر اس نے دو رکعتوں سے سلام پھیرنے سے پہلے یا دو رکعتوں سے سلام پھیرنے کے بعد بات چیت کی، اور ہر وہ شخص جس نے نماز کی حالت میں کسی انسان سے گفتگو کی تو اس پر اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے لئے نماز کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو جواب دینا جائز نہیں کیا، سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنہیں ﷲ تعالیٰ نے اس حالت میں جواب دینے کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔ میں نے طویل مسئلہ مکمّل بیان کیا ہے، اور اس مسئلہ میں اپنے اصحاب پر اعتراض کرنے والے علماء کے دلائل بھی ذکر کیے ہیں - انہوں نے اس مسئلہ میں جو نا ممکن دلائل اور غیر معقول باتیں ہمارے اصحاب کے خلاف کی ہیں میں ان کی قباحت کو بیان کردوں گا، اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق عنایت فرمائی۔