صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ
نماز میں بُھول چُوک کے ابواب کا مجموعہ
659. (426) بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ يَسْجُدُهُمَا الشَّاكُّ فِي صَلَاتِهِ،
اس بات کا بیان کہ یہ دو سجدے جنہیں اپنی نماز میں شک کرنے والا ادا کرے گا
حدیث نمبر: Q1024
Save to word اعراب
إذا بنى على اليقين فيسجدهما قبل السلام لا بعد السلام ضد قول من زعم ان سجدتي السهو في جميع الاحوال تكونان بعد السلام إِذَا بَنَى عَلَى الْيَقِينِ فَيَسْجُدُهُمَا قَبْلَ السَّلَامِ لَا بَعْدَ السَّلَامِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ فِي جَمِيعِ الْأَحْوَالِ تَكُونَانِ بَعْدَ السَّلَامِ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1024
Save to word اعراب
نا محمد بن المثنى ، نا يحيى بن محمد بن قيس المدني ، قال: سمعت زيد بن اسلم ، ح وحدثنا الربيع بن سليمان ، حدثنا شعيب يعني ابن الليث ، حدثنا الليث ، عن محمد بن عجلان ، عن زيد بن اسلم ، ح وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الماجشون عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة ، حدثنا زيد بن اسلم ، ح وحدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني هشام وهو ابن سعد ، ان زيد بن اسلم حدثهم، وهذا، حديث الربيع، وهو احسنهم سياقا للحديث، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إذا شك احدكم في صلاته فلم يدر كم صلى واحدة ام اثنتين ام ثلاثا ام اربعا، فليتمم ما شك فيه، ثم يسجد سجدتين وهو جالس، فإن كانت صلاته ناقصة فقد اتمها، والسجدتان ترغيم للشيطان، وإن كان اتم صلاته فالركعة والسجدتان له نافلة" نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، نَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ ، ح وَحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْمَاجِشُونُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، ح وَحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي هِشَامٌ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ حَدَّثَهُمْ، وَهَذَا، حَدِيثُ الرَّبِيعِ، وَهُوَ أَحْسَنُهُمْ سِيَاقًا لِلْحَدِيثِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى وَاحِدَةً أَمِ اثْنَتَيْنِ أَمْ ثَلاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيُتَمِّمْ مَا شَكَّ فِيهِ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ نَاقِصَةً فَقَدْ أَتَمَّهَا، وَالسَّجْدَتَانِ تَرْغِيمٌ لِلشَّيْطَانِ، وَإِنْ كَانَ أَتَمَّ صَلاتَهُ فَالرَّكْعَةُ وَالسَّجْدَتَانِ لَهُ نَافِلَةٌ"
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، ایک، دو، تین یا چار پڑھی ہیں؟ تو وہ اتنی رکعات مکمّل کرلے جن میں اسے شک ہو، پھر وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجے کرلے، چنانچہ اگر اس کی نماز نا مکمّل تھی تو اُس نے اب پوری کرلی اور دو سجدے شیطان کی ذلت و خواری کا سبب ہوں گے، اور اگر اُس نے اپنی نماز مکمّل کرلی تھی تو (یہ زائد) رکعت اور دو سجدے اس کے لئے نفل ہوں گے۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
حدیث نمبر: 1025
Save to word اعراب
ثنا به الربيع مرة اخرى من كتابه، وقال:" فليبن على ما استيقن، ثم يسجد سجدتين من قبل السلام". وقال ابو موسى، والدورقي، ويونس: إذا شك احدكم في صلاته فلا يدري ثلاثا صلى ام اربعا، فليصل ركعة، ويسجد سجدتين قبل السلام، ثم باقي حديثهم مثل حديث الربيع. قال لنا ابو بكر: في هذا الخبر عندي دلالة على ان صاحب المال إذا كان ماله غائبا عنه، فاخرج زكاته واوصلها إلى اهل سهمان الصدقة، ناويا إن كان ماله سالما فهي زكاته، وإن كان ماله مستهلكا فهو تطوع، ثم بان عنده وصح ان ماله كان سالما، ان ماله الذي اوصله إلى اهل سهمان الصدقة كان جائزا عنه في الصدقة المفروضة في ماله الغائب، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اجاز عن المصلي هذه الركعة التي صلاها بإحدى اثنتين، إن كانت صلاته التي صلاها ثلاثا، فهذه الركعة رابعة التي هي فرض عليه، وإن كانت صلاته تامة فهذه الركعة نافلة، فقد اجزت عنه هذه الركعة من الفريضة، وهو إنما صلاها على انها فريضة او نافلةثنا بِهِ الرَّبِيعُ مَرَّةً أُخْرَى مِنْ كِتَابِهِ، وَقَالَ:" فَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ مِنْ قَبْلِ السَّلامِ". وَقَالَ أَبُو مُوسَى، وَالدَّوْرَقِيُّ، وَيُونُسُ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ فَلا يَدْرِي ثَلاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً، وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ السَّلامِ، ثُمَّ بَاقِي حَدِيثِهِمْ مِثْلُ حَدِيثِ الرَّبِيعِ. قَالَ لَنَا أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ عِنْدِي دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ صَاحِبَ الْمَالِ إِذَا كَانَ مَالُهُ غَائِبًا عَنْهُ، فَأَخْرَجَ زَكَاتَهُ وَأَوْصَلَهَا إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ، نَاوِيًا إِنْ كَانَ مَالُهُ سَالِمًا فَهِيَ زَكَاتُهُ، وَإِنْ كَانَ مَالُهُ مُسْتَهْلَكًا فَهُوَ تَطَوُّعٌ، ثُمَّ بَانَ عِنْدَهُ وَصَحَّ أَنَّ مَالَهُ كَانَ سَالِمًا، أَنَّ مَالَهُ الَّذِي أَوْصَلَهُ إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ كَانَ جَائِزًا عَنْهُ فِي الصَّدَقَةِ الْمَفْرُوضَةِ فِي مَالِهِ الْغَائِبِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَازَ عَنِ الْمُصَلِّي هَذِهِ الرَّكْعَةَ الَّتِي صَلاهَا بِإِحْدَى اثْنَتَيْنِ، إِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ الَّتِي صَلاهَا ثَلاثًا، فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ رَابِعَةُ الَّتِي هِيَ فَرْضٌ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ تَامَّةً فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ نَافِلَةٌ، فَقَدْ أَجْزَتْ عَنْهُ هَذِهِ الرَّكْعَةُ مِنَ الْفَرِيضَةِ، وَهُوَ إِنَّمَا صَلاهَا عَلَى أَنَّهَا فَرِيضَةٌ أَوْ نَافِلَةٌ
امام صاحب فرماتے ہیں کہ امام ربیع نے ہمیں ایک مر تبہ اپنی کتاب سے بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ لہٰذا وہ یقین پر بنا کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور جناب ابوموسٰی دورتی اور یونس نے اپنی روایت میں کہا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت پڑھ لینی چاہیے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ ان کی باقی روایت جناب ربیع کی روایت کی طرح ہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله نے فرمایا کہ اس حدیث میں میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار شخص کا مال جب اس کے پاس موجود نہ ہو (تجارت وغیرہ کی غرض سے کسی علاقے میں بیٹھا ہوا ہو) پھر وہ اس کی زکوٰۃ نکال کر صدقے کے حق داروں کو پہنچادے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اگر اس کا مال صحیح سلامت ہوا تو یہ اس کی زکوٰۃ ہے اور اگر اس کا مال ہلاک و تباہ ہو چکا ہوا تو یہ نفلی صدقہ ہے، پھر اسے صحیح اطلاع مل گئی کہ اس کا مال صحیح سلامت ہے تو اس کا وہ مال جو اُس نے اپنے غیر موجود مال کی فرض زکوٰۃ کے طور پر صدقہ و زکوٰۃ کے حق داروں کو پہنچایا تھا وہ جائز اور درست ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کی ایک رکعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جو اُس نے دو طرح کی نیت سے ادا کی تھی۔ کہ اگر اس کی ادا شدہ نماز تین رکعات ہوئی تو یہ اس کی چوتھی فرض رکعت ہوگی، اور اگر اس کی نماز مکمّل ہو چکی تھی تو یہ رکعت نفل ہوگی۔ اور اس کی یہ رکعت فرض نماز سے کفایت کرجائے گی حالانکہ اس نے یہ رکعت فرض یا نفل کی نیت سے ادا کی تھی۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.