جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ نماز میں بُھول چُوک کے ابواب کا مجموعہ 660. (427) بَابُ الْأَمْرِ بِتَحْسِينِ رُكُوعِ هَذِهِ الرَّكْعَةِ وَسُجُودِهَا الَّتِي يُصَلِّيهَا لِتَمَامِ صَلَاتِهِ أَوْ نَافِلَتِهِ اس رکعت کے رکوع اور سجود کو خوب اچھی طرح ادا کرنے کا بیان جسے وہ اپنی نماز کی تکمیل یا بطور نفل پڑھے گا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، تین رکعات یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ ایک رکعت پڑھ لے، اس کے رکوع و سجود خوب سنوار کر ادا کرے اور (آخر میں) دو سجدے کر لے۔“ محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ روایت ایوب کی کتاب میں ایک اور جگہ پر موقوف بھی دیکھی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عمر بن محمد، وہ زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے اور عاصم اور واقد کا بڑا بھائی ہے۔“ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے احمد بن سعید الداری رحمه الله کو فرماتے ہوئے سنا کہ عاصم، عمر، زید، واقد، ابوبکر اور فرقد یہ سب بھائی ہیں۔ اور عاصم وہ محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام درامی نے ہمیں یہ بات اپنی روایت کے بعد بیان کی۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
جناب حبیب بن ابی ثابت بیان کرتے ہیں کہ اس دوران کہ حجاج خطبہ دے رہا تھا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے اور ان کے ساتھ اُن کے دو بیٹے اُن کی دائیں اور بائیں جانب بیٹھے تھے، جب حجاج نے کہا کہ ابن الزبیر نے اللہ کی کتاب قرآن مجید کو جھکا دیا ہے، اللہ اس کے دل کو اوندھا کرے۔ حبیب نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ تھے چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ کام تیرے اور اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ راوی نے کہا تو حجاج خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے کہا، بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور ہر مسلمان کو علم عطا کیا ہے، اے بوڑھے تم بھی عقل سے کام لو۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر یہ قصہ عاصم کے واسطے سے حبیب سے بیان کیا تو کہا، پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما (حجاج کی طرف) اُچھلے تو اُن کے بیٹوں نے انہیں بٹھا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں نے اصل فضیلت والی بات تو اسے کہی نہیں کہ تُو (حجاج) جھوٹا ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
|