والدليل على الفرق بين الكلام في الصلاة ساهيا وبين الكلام في الصلاة عامدا، إذ مخالفونا من العراقيين يتابعونا على الفرق بين السلام قبل الفراغ من الصلاة عامدا وبين السلام ساهيا، فيوجبون على المسلم عامدا إعادة الصلاة، ويبيحون للمسلم ناسيا في الصلاة إتمام الصلاة والبناء على ما قد صلى قبل السلاموَالدَّلِيلِ عَلَى الْفَرْقِ بَيْنَ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ سَاهِيًا وَبَيْنَ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ عَامِدًا، إِذْ مُخَالِفُونَا مِنَ الْعِرَاقِيِّينَ يُتَابِعُونَا عَلَى الْفَرْقِ بَيْنَ السَّلَامِ قَبْلَ الْفَرَاغِ مِنَ الصَّلَاةِ عَامِدًا وَبَيْنَ السَّلَامِ سَاهِيًا، فَيُوجِبُونَ عَلَى الْمُسَلِّمِ عَامِدًا إِعَادَةَ الصَّلَاةِ، وَيُبِيحُونَ لِلْمُسَلِّمِ نَاسِيًا فِي الصَّلَاةِ إِتْمَامَ الصَّلَاةِ وَالْبِنَاءَ عَلَى مَا قَدْ صَلَّى قَبْلَ السَّلَامِ
سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی تو (نماز مکمّل ہونے سے پہلے) سلام پھیر دیا حالانکہ نماز کی ایک رکعت ابھی باقی تھی۔
نا بندار ، نا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت يحيى بن ايوب يحدث، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن سويد بن قيس ، عن معاوية بن حديج ، قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسها فسلم في ركعتين ثم انصرف، فقال له رجل: يا رسول الله، إنك سهوت فسلمت في ركعتين،" فامر بلالا فاقام الصلاة، ثم اتم تلك الركعة" وسالت الناس عن الرجل الذي، قال: يا رسول الله، إنك سهوت، فقيل لي: تعرفه؟ قلت: لا، إلا ان اراه، فمر بي رجل فقلت: هو هذا قالوا: هذا طلحة بن عبيد الله. هذا حديث بندار، قال ابو بكر: هذه القصة غير قصة ذي اليدين ؛ لان المعلم النبي صلى الله عليه وسلم انه سها في هذه القصة طلحة بن عبيد الله، ومخبر النبي صلى الله عليه وسلم في تلك القصة ذو اليدين، والسهو من النبي صلى الله عليه وسلم في قصة ذي اليدين إنما كان في الظهر او العصر، وفي هذه القصة إنما كان السهو في المغرب لا في الظهر، ولا في العصر. وقصة عمران بن حصين قصة الخرباق، قصة ثالثة ؛ لان التسليم في خبر عمران من الركعة الثالثة، وفي قصة ذي اليدين من الركعتين، وفي خبر عمران دخل النبي صلى الله عليه وسلم حجرته، ثم خرج من الحجرة، وفي خبر ابي هريرة قام النبي صلى الله عليه وسلم إلى خشبة معروضة في المسجد، فكل هذه ادله ان هذه القصص هي ثلاث قصص: سها النبي صلى الله عليه وسلم مرة فسلم من الركعتين، وسها مرة اخرى فسلم في ثلاث ركعات، وسها مرة ثالثة فسلم في الركعتين من المغرب، فتكلم في المرات الثلاث، ثم اتم صلاتهنَا بُنْدَارٌ ، نَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَهَا فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ سَهَوْتَ فَسَلَّمْتَ فِي رَكْعَتَيْنِ،" فَأَمَرَ بِلالا فَأَقَامَ الصَّلاةَ، ثُمَّ أَتَمَّ تِلْكَ الرَّكْعَةَ" وَسَأَلَتِ النَّاسُ عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ سَهَوْتَ، فَقِيلَ لِي: تَعْرِفُهُ؟ قُلْتُ: لا، إِلا أَنْ أَرَاهُ، فَمَرَّ بِي رَجُلٌ فَقُلْتُ: هُوَ هَذَا قَالُوا: هَذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ. هَذَا حَدِيثُ بُنْدَارٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ ؛ لأَنَّ الْمُعْلِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَهَا فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَمُخْبِرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِلْكَ الْقِصَّةِ ذُو الْيَدَيْنِ، وَالسَّهْوُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ إِنَّمَا كَانَ فِي الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ، وَفِي هَذِهِ الْقِصَّةِ إِنَّمَا كَانَ السَّهْوُ فِي الْمَغْرِبِ لا فِي الظُّهْرِ، وَلا فِي الْعَصْرِ. وَقِصَّةُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قِصَّةُ الْخِرْبَاقِ، قِصَّةٌ ثَالِثَةٌ ؛ لأَنَّ التَّسْلِيمَ فِي خَبَرِ عِمْرَانَ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ، وَفِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ، وَفِي خَبَرِ عِمْرَانَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجْرَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْحُجْرَةِ، وَفِي خَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَكُلُّ هَذِهِ أَدِلَّهٌ أَنَّ هَذِهِ الْقِصَصَ هِيَ ثَلاثُ قَصَصٍ: سَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً فَسَلَّمَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ، وَسَهَا مَرَّةً أُخْرَى فَسَلَّمَ فِي ثَلاثِ رَكَعَاتٍ، وَسَهَا مَرَّةً ثَالِثَةً فَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الْمَغْرِبِ، فَتَكَلَّمَ فِي الْمَرَّاتِ الثَّلاثِ، ثُمَّ أَتَمَّ صَلاتَهُ
سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز کے لئے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہ رکعت مکمّل کی، اور میں نے لوگوں سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول، بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ تو مجھے کہا گیا، کیا آپ اُسے پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، مگر اسے دیکھ لوں (تو پہچان سکتا ہوں) پھر میرے پاس سے ایک آدمی گزرا تو میں نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے، تو لوگوں نے کہا کہ یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔ یہ بندار کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ قصّہ ذوالیدین کے قصّہ کے علاوہ ہے۔ کیونکہ اس قصّہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول کی اطلاع دینے والا طلحہ بن عبیداللہ ہے۔ جبکہ اس قصّہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانے والا ذوالیدین تھا۔ ذوالیدین کے قصّہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ظہر یا عصر میں بھول ہوئی تھی اور اس واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول مغرب کی نماز میں ہوئی، ظہر اور عصر کی نماز میں نہیں ہوئی - سیدنا عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ کی روایت میں مذکور خرباق کا واقعہ تیسرا واقعہ ہے - کیونکہ حضرت عمران کی روایت میں تیسری رکعت کے بعد سلام پھیرنے کا ذکر ہے۔ جبکہ ذوالیدین کے واقعے میں دوسری رکعت کے بعد سلام پھیرنے کا ذکر ہے، حضرت عمران کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے بعد) اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ سے باہر تشریف لائے، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد (کے قبلے) میں آڑی رکھی ہوئی لکڑی کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑے ہو گئے۔ یہ تمام دلائل اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھولے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، ایک اور مر تبہ بھولے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری رکعت کے بعد سلام پھیرا، تیسری بار بھولے تو مغرب کی دوسری رکعت کے بعد سلام پھیردیا۔ تینوں مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام کی، پھر اپنی بقیہ نماز مکمّل کی۔