قال ابو بكر: وهكذا رواه ابان بن يزيد العطار، عن يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم فذكر القصة. ثناه محمد بن يحيى ، نا مسلم بن إبراهيم ، حدثنا ابان بن يزيد ، قال ابو بكر: فابو هريرة يخبر انه شهد هذه الصلاة مع النبي صلى الله عليه وسلم التي فيها هذه القصة، فكيف تكون قصة ذي اليدين هذه قبل نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الكلام في الصلاة؟ وابن مسعود يخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم اعلمه عند رجوعه من ارض الحبشة لما سلم على النبي صلى الله عليه وسلم، ان مما احدث الله ان لا يتكلموا في الصلاة، ورجوع ابن مسعود من ارض الحبشة كان قبل وقعة بدر، إذ ابن مسعود قد كان شهد بدرا، وادعى انه قتل ابا جهل بن هشام يومئذ، قد امليت هذه القصة في كتاب الجهاد، وابو هريرة إنما قدم المدينة بعد بدر بسنين، قدم المدينةقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَكَذَا رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ. ثناهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَبُو هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الصَّلاةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِيهَا هَذِهِ الْقِصَّةُ، فَكَيْفَ تَكُونُ قِصَّةُ ذِي الْيَدَيْنِ هَذِهِ قَبْلَ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلامِ فِي الصَّلاةِ؟ وَابْنُ مَسْعُودٍ يُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ عِنْدَ رُجُوعِهِ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ لَمَّا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ مِمَّا أَحْدَثَ اللَّهُ أَنْ لا يَتَكَلَّمُوا فِي الصَّلاةِ، وَرُجُوعُ ابْنِ مَسْعُودَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ كَانَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، إِذِ ابْنُ مَسْعُودٍ قَدْ كَانَ شَهِدَ بَدْرًا، وَادَّعَى أَنَّهُ قَتَلَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَوْمَئِذٍ، قَدْ أَمْلَيْتُ هَذِهِ الْقِصَّةَ فِي كِتَابِ الْجِهَادِ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّمَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ بَدْرٍ بِسِنِينَ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ
امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح یہ روایت ابان بن یزید العطار نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے سیدنا ابوسلمہ کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ پھر پورا قصّہ بیان کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، جس میں یہ قصّہ ہے۔ لہٰذا ذوالیدین کا یہ قصّہ نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو منع کر نے سے پہلے کا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بتا رہے کہ ہیں کہ جب انہوں نے ملک حبشہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (حالت نماز میں) سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے نیا حُکم دے دیا ہے کہ نمازی نماز کے دوران میں بات چیت نہ کیا کریں۔ اور سر زمین حبشہ سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی واپسی جنگ بدر سے پہلے ہوئی تھی کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور اُنہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے اسی دن ابوجہل بن ہشام کو قتل کیا تھا۔ میں نے یہ قصّہ کتاب الجہاد میں بیان کیا ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے کئی سال بعد مدینہ منوّرہ تشریف لائے ہیں۔ جب وہ مدینہ آئے تھے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ خیبر کے لئے) خیبر میں تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں سیدنا سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔