حدثنا علي بن حجر ، حدثنا إسماعيل ، حدثنا العلاء بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتقوا اللعنتين او اللعانين"، قيل: وما هما؟ قال: الذي يتخلى في طريق الناس او ظلهم" . قال ابو بكر: وإنما استدللت على ان النبي صلى الله عليه وسلم اراد بقوله:" او ظلهم": الظل الذي يستظلون به إذا جلسوا مجالسهم بخبر عبد الله بن جعفر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان احب ما استتر به في حاجته هدفا او حائش نخل، إذ الهدف هو الحائط، والحائش من النخل النخلات المجتمعات، وإنما سمي البستان حائشا لكثرة اشجاره، ولا يكاد الهدف يكون إلا وله ظل، إلا وقت استواء الشمس، فاما الحائش من النخل فلا يكون وقت من الاوقات بالنهار إلا ولها ظل، والنبي صلى الله عليه وسلم قد كان يستحب ان يستتر الإنسان في الغائط بالهدف والحائش، وإن كان لهما ظلحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اتَّقُوا اللَّعْنَتَيْنِ أَوِ اللَّعَّانَيْنِ"، قِيلَ: وَمَا هُمَا؟ قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ أَوْ ظِلِّهِمْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّمَا اسْتَدْلَلْتُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" أَوْ ظِلِّهِمُ": الظِّلَّ الَّذِي يَسْتَظِلُّونَ بِهِ إِذَا جَلَسُوا مَجَالِسَهُمْ بِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ فِي حَاجَتِهِ هَدَفًا أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ، إِذِ الْهَدَفُ هُوَ الْحَائِطُ، وَالْحَائِشُ مِنَ النَّخْلِ النَّخْلاتُ الْمُجْتَمِعَاتُ، وَإِنَّمَا سُمِّيَ الْبُسْتَانُ حَائِشًا لِكَثْرَةِ أَشْجَارِهِ، وَلا يَكَادُ الْهَدَفُ يَكُونُ إِلا وَلَهُ ظِلٌّ، إِلا وَقْتَ اسْتِوَاءِ الشَّمْسِ، فَأَمَّا الْحَائِشُ مِنَ النَّخْلِ فَلا يَكُونُ وَقْتٌ مِنَ الأَوْقَاتِ بِالنَّهَارِ إِلا وَلَهَا ظِلٌّ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَسْتَتِرَ الإِنْسَانُ فِي الْغَائِطِ بِالْهَدَفِ وَالْحَائِشِ، وَإِنْ كَانَ لَهُمَا ظِلٌّ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو لعنتوں سے بچو“ یا فرمایا: ”لعنت کا باعث بننے والی دو چیزوں سے بچو“(یعنی جن کی وجہ سے لوگ لعنت کرتے ہیں) عرض کی گئی کہ وہ کونسی دو چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جو لوگوں کے راستے یا ان کے سائے والی جگہ میں قضائے حاجت کرتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «او ظلهم» ”ان کےسائےوالی جگہ میں سے“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ سایہ دار جگہیں ہیں جن میں وہ اپنی محفلیں قائم کرتے وقت سایہ حاصل کرتے ہیں۔ میں نے یہ استدال سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سےکیا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے اونچی جگہ (جیسے دیوار یا ٹیلہ وغیرہ) یا کھجوروں کے جھنڈے سے پردہ کرنا پسند کرتےتھے۔ کیونکہ ھدف سے مراد دیوار ہےاور کھجوروں کے جھنڈ سےمراد کھجوروں کا مجموعہ ہے۔ باغ کو درختوں کی کثرت کی بنا پر حائش (جھنڈ) کہتے ہیں۔ ھدف کا سایہ سورج کے استوا کےسوا ہروقت ہوتا ہے۔ جبکہ کھجوروں کے جھنڈ کا سایہ سارا دن رہتا ہے (یعنی استوا کے وقت بھی اس کا سایہ ہوتا ہے) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پسند کیا کرتے تھے کہ انسان قضائے حاجت کے لئے ھدف (دیوار یا ٹیلے وغیرہ) یا جھنڈ سے پردہ کرے اگر چہ ان دونوں کا سایہ ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب النهي عن النخلى فى الطرق والظلال، رقم: 269، سنن أبى داوٗد: 25، مسند احمد: 372/2، وابن حبان فى صحيحه: 1415، والحاكم: 296/1»