كِتَابُ الْإِيمَان ایمان کا بیان کامل ایمان والے کی نشانیاں
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں، جو دوستى رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں، اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4422، والطبراني فى «الصغير» برقم: 605، وله شواهد من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص، فأما حديث عبد الله بن عمرو بن العاص، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3559، 3759، 6029، 6035، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2321، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1975، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6615، 6936، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 477، السلسلة احاديث صحيحه:751، قال الشيخ الألباني: صحيح»
حكم: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن مسعود! ایمان کا کون سا کڑا زیادہ مضبوط ہے؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کا مضبوط کڑا اللہ کے لیے دوستى کرنا اور محبت کرنا اور اسى کے لیے دشمنی رکھنا ہے۔“ پھر فرمایا: ”ابن مسعود!“ میں نے کہا: حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو جانتا ہے کہ کون سا آدمى فضیلت والا ہے؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں عمل کے لحاظ سے وہ بہتر ہیں جو دین میں سمجھ رکھیں۔“ پھر فرمایا: ”اے ابن مسعود!“ میں نے کہا: میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے معلوم ہے لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا عالم وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف کے وقت حق پر نظر رکھے، اور اگرچہ اپنے عمل میں کوتاہى کرنے والا ہو۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو گھسیٹ کر سرینوں کے بل ہى آئے، تم سے پہلے لوگوں میں اختلاف بہتر (72) فرقوں پر ہوا، جن میں سے تین نجات پا گئے باقى ہلاک ہوگئے، ایک وہ تھا جس نے بادشاہوں کا مقابلہ کیا اور اپنے دین اور عیسیٰ علیہ السلام کے دین کے متعلق ان سے جنگ کى تو انہوں نے ان کو پکڑ کر مار ڈالا اور آریوں سے چیر ڈالا۔ دوسرا وہ تھا جن میں بادشاہوں کا مقابلہ کرنے کى طاقت نہیں تھى، اور نہ ہى ان میں طاقت تھى کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین اور عیسیٰ علیہ السلام کے دین کى طرف دعوت دیں، تو وہ شہروں میں نکل گئے اور درویش اور راہب بن گئے، اور وہ وہی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ﴾» (الحديد: 27) یعنى ”رہبانیت انہوں نے خود پیدا کرلى تھى۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، اللہ کى رضا مندى کی تلاش کے لیے (انہوں نے اسے اپنایا)۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پرایمان لایا، میرى پیروى اور تصدیق کى تو اس نے اس کے خیال رکھنے کا حق ادا کر دیا، اور جس نے میرى پیروى نہ کى تو یہی لوگ ہلاک ہونے والے ہیں۔“ تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 3811، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21131، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 376، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 10357، 10531، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4479، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 624، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31083
قال الهيثمي: وفيه عقيل بن الجعد قال البخاري منكر الحديث، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (1 / 162)» حكم: إسناده ضعيف
|