من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 20. باب الاِسْتِمْتَاعِ بِجُلُودِ الْمَيْتَةِ: مرے ہوئے جانور کی کھال کے استعمال کا بیان
عبدالرحمٰن بن وعلۃ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چمڑے کی مشک (جس میں پانی بھرا جاتا ہے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تمہیں کیا جواب دوں سوائے اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو بھی کھال دباغت دی جائے وہ پاک ہو گئی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2028]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 366]، [أبوداؤد 4123]، [ترمذي 1727]، [نسائي 4252]، [ابن ماجه 3609] وضاحت:
(تشریح حدیث 2023) ماکول اللحم جانور کی کھال نمک، درخت کے پتوں وغیرہ سے صاف کی جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے اور اس سے انتفاع جائز ہے خواہ وہ جانور مردہ ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ آگے حدیث میں آ رہا ہے۔ اس حدیث میں «أَيُّمَا إِهَابٍ» عام ہے، یعنی جو چمڑا بھی دباغت دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے، اس عموم سے علماء نے استدلال کیا کہ کسی بھی جانور کا چمڑا ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے سور اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کتے اور سور کے چمڑے کے بارے میں کہا: وہ کسی صورت میں جائز و پاک نہیں ہوگا۔ اسی طرح آدمی کا چمڑا بھی دباغت سے پاک اور قابلِ استعمال نہ ہوگا۔ سور اور کتا ناپاک و نجس ہونے کے سبب اور آدمی کی کھال آدمی کے معظم و مکرم ہونے کے سبب قابلِ انتفاع نہیں۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مردہ جانور کی کھال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”دباغت سے وہ پاک ہو جاتی ہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں، اس جانور کی کھال استعمال کی جا سکتی ہے (جو ماکول اللحم ہو)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن اين إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 2029]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن اين إسحاق قد عنعن وهو مدلس
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ جانور کی کھال سے انتفاع کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2030]»
اس روایت میں ابن اسحاق کا عنعنہ ہے لیکن اس کے رواة ثقات اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 1290]، [موارد الظمآن 123]، [أبوداؤد 4124]، [نسائي 4263]، [ابن ماجه 3612] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی بکری مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش تم اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مردہ تھی؟ فرمایا: ”مردار کا فقط کھانا حرام ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2031]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1492]، [مسلم 363]، [أبوداؤد 4120]، [ترمذي 1727]، [نسائي 4246]، [أبويعلی 2419]، [ابن حبان 1284]، [مسند الحميدي 498] وضاحت:
(تشریح احادیث 2024 سے 2027) یعنی مردار کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن دباغت کے بعد چمڑا و جلد سے انتفاع جائز ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: لومڑیوں کی کھال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جبکہ اس کو دباغت دے دی گئی ہو؟ فرمایا: میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں (کیونکہ لومڑی غیر ماکول اللحم ہے، اس کا کھانا جائز نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2032]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ تخریج اوپر مذکور ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 2027) ان احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ مردہ جانور کی کھال ان کے مرنے کے بعد بھی نکال کر دباغت کے بعد کام میں لائی جا سکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ ماکول اللحم جانور کی ہو۔ (واللہ اعلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
|