من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 2. باب مَا يُسْتَدَلُّ مِنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الأُضْحِيَّةَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ: قربانی کرنا واجب نہیں ہے
سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو وہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں نہ اپنے ناخون کاٹے نہ بال منڈوائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1990]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1977]، [أبوداؤد 2791]، [ترمذي 1523]، [نسائي 4373]، [ابن ماجه 3149، 3150]، [أبويعلی 6910]، [ابن حبان 5897]، [الحميدي 295] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لكن الحديث صحيح
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوا، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال نہ کاٹے اور نہ ناخون کاٹے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1991]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1985 سے 1987) ان احادیثِ صحیحہ کے الفاظ «مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ» سے یہ مسألہ نکلا کہ جو قربانی نہ کرنا چاہے اس پر کوئی پابندی اور گناہ نہیں، غالباً امام دارمی رحمہ اللہ کا یہی مقصود باب اور احادیث الباب سے ہے۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کرنی ہو تو صاحبِ قربانی ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن کاٹے، اور یہ حکم استحباباً ہے، بعض فقہائے کرام کے نزدیک قربانی کرنے والے پر بال و ناخن کاٹنا حرام ہے۔ پہلا حکم زیادہ صحیح ہے اور مذکور بالا احادیث میں نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، نیز یہ کہ حکم صاحبِ قربانی کے لئے ہے اہل و عیال پر یہ پابندی ضروری نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|