من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 8. باب في الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ: فرع اور عتیرہ کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرع اور عتیره (اسلام میں) نہیں ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2007]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5474]، [مسلم 1976]، [ترمذي 1512]، [نسائي 4233]، [ابن ماجه 3168]، [أبويعلی 5879]، [ابن حبان 5890]، [الحميدي 1126] وضاحت:
(تشریح حدیث 2002) بخاری شریف کی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ فرع اونٹنی کے پہلے بچے کو کہتے ہیں، زمانۂ جاہلیت میں اس کو لوگ اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ اور عتیرہ وہ قربانی ہے جسے وہ رجب میں کرتے تھے۔ مولانا راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عوامِ جہلاء مسلمانوں میں اب تک یہ رسم ماہِ رجب میں کونڈے بھرنے کی رسم کے نام سے جاری ہے۔ رجب کے آخری عشرے میں بعض جگہ بڑے ہی اہتمام سے کونڈے بھرنے کا تہوار منایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے کھڑے پیر کی نیاز بتلاتے ہیں اور اسے کھڑے ہی کھڑے کھاتے ہیں، یہ جملہ محدثات بدعتِ ضلالہ ہیں (اور مذکورہ بالا حدیث میں اس کی ممانعت ہے)، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایسی خرافات سے بچنے کی ہدایت بخشے، آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابورزین لقيط بن عامر عقیلی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دور جاہلیت میں ماہ رجب میں قربانی کیا کرتے تھے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: ”ذبح کرنے میں کوئی برائی نہیں۔“ (یعنی جب اللہ کے لئے ذبح کیا جائے تو کسی بھی مہینے میں قربانی ہو کوئی حرج نہیں «كما فى النسائي وغيره»)۔ امام وکیع رحمہ اللہ نے کہا: میں اس کو کبھی ترک نہیں کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2008]»
اس روایت کی سند جید ہے، دیکھئے: [نسائي 4244]، [ابن ماجه 3167 نحوه]، [ابن حبان 5891]، [موارد الظمآن 1067] وضاحت:
(تشریح حدیث 2003) فرع اور عتیرہ کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ فرع اونٹنی کا پہلونٹا بچہ جو دیوی دیوتاؤں کے نام پر قربان کر دیا جاتا تھا جو اسلام میں حرام ہے، رہا عتیرہ یہ بھی بتوں کے لئے رجب میں قربان کیا جاتا ہے تو یہ بھی حرام ٹھہرا، ہاں اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے تو رجب، شعبان، رمضان اور دیگر ہر مہینے میں اللہ کے نام کی قربانی جائز ہے، امام وکیع رحمہ اللہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|