من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 3. باب مَا لاَ يَجُوزُ في الأَضَاحِيِّ: قربانی کے لئے جو جانور جائز نہیں اس کا بیان
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی کے لئے کیسے جانور سے پرہیز کیا جائے؟ فرمایا: ”ایک تو کانا جانور جس کانا پن ظاہر ہو، (دوسرے) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، (تیسرے) ایسا بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر و بائن ہو اور (چوتھے) ایک دبلی پتلی قربانی جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1992]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ فى كتاب الضحايا 1]، [أبوداؤد 2802]، [ترمذي 1497]، [نسائي 4381]، [ابن ماجه 3144]، [ابن حبان 5919]، [الموارد 1046] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبید بن فیروز نے کہا: میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قربانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن چیزوں سے روکا؟ جواب دیا کہ چار قسم کی قربانی کافی نہ ہو گی، ایک تو ایسی کانی جس کا کانا پن ظاہر ہو، دوسرے ایسی لنگڑی جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، تیسرے ایسی بیمار جس کا مرض ظاہر ہو، چوتھے ایسی بوڑھی کہ ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔ عبید نے کہا: میں نے سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ دانت میں خامی، کان میں نقص یا سینگ میں خرابی ہو؟ فرمایا: جو پسند نہ ہو اسے چھوڑ دو اور کسی اور پر اسے حرام نہ کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1993]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1987 سے 1989) یعنی تھوڑا سا نقص و خرابی ہو اور تمہارا دل مطمئن نہ ہو تو اسے چھوڑ دو، لیکن دوسروں کے لئے اس کو حرام نہ گردانو۔ حدیث کا لفظ بھی «الْبَيِّنُ» کے ساتھ ہے، یعنی جو نقص و خرابی بالکل ظاہر و بائن ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حجیہ بن عدی نے کہا: میں نے سنا ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: اے امیر المومنین! گائے کتنے افراد کی طرف سے؟ فرمایا: سات افراد کی طرف سے، میں نے عرض کیا: سینگ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی برائی نہیں، عرض کیا: اور لنگڑا پن؟ فرمایا: قربان گاہ تک پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں، (یعنی جو چل سکتا ہو اس میں کوئی حرج نہیں)، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کوحکم دیا تھا کہ ”آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1994]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1498]، [نسائي 4388، الطرف الأخير فقط]، [أبويعلی 333]، [ابن حبان 5920] وضاحت:
(تشریح حدیث 1989) اس حدیث کا آخری جملہ نسائی اور ترمذی میں مذکور ہے طرفِ اوّل مذکور نہیں، اس روایت کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک کان اور آنکھ کی خرابی ہی قربانی کے موانع میں سے ہے اور سینگ کا ٹوٹا ہونا یا لنگڑے پن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیک کرنے کا حکم نہیں دیا، (واللہ اعلم)۔ لیکن سینگ اور لنگڑا پن بھی نقص ہے جو قربانی کے جانور میں نہیں ہونا چاہئے، جیسا کہ اگلی حدیث میں صراحتاً مذکور ہے۔ ہاں قدرتی طور پر سینگ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (قربانی) کے کان اور آنکھ کو خوب دیکھ لیں (یعنی ان میں کوئی نقص نہ ہو) اور مقابلہ، مدابرة، خرقاء اور شرقاء کی قربانی نہ کریں۔ مقابلہ وہ جانور جس کا کان کاٹ دیا گیا ہو، مدابرہ وہ ہے کہ کان کی جانب سے کچھ کٹا ہوا ہو، اور خرقاء وہ ہے جس کا کان چھدا ہوا ہو، اور شرقاء جس کا کان چرا ہوا ہو۔ (یہ سب کان کے نقص ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہیں)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان، [مكتبه الشامله نمبر: 1995]»
اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 2804]، [ترمذي 1498]، [نسائي 4384]، [ابن ماجه 3142] وضاحت:
(تشریح حدیث 1990) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لنگڑی، کن کٹی اور ٹوٹے سینگ والی، مریل، بوڑھی کی قربانی درست نہیں، مذکورہ علل و خرابیاں قربانی کے جانور کو عیب دار بنا دیتی ہیں، اس لئے قربانی ایسے جانور کی کرنی چاہئے جس میں مذکور بالا عیوب نہ ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان
|