من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 7. باب في الذَّبْحِ قَبْلَ الإِمَامِ: امام سے پہلے قربانی کرنے کا بیان
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے (عید الاضحیٰ) کی نماز سے پہلے قربانی کر دی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو انہیں بلایا اور انہوں نے اپنا ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری یہ بکری گوشت کھانے کی ہوئی“ (یعنی قربانی نہیں ہوئی)، سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک بکری کا بچہ سال بھر کا ہے، یا یہ کہا: میرے پاس بکری کا جذعہ ہے جو میرے نزدیک دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے؟ فرمایا: ”اسی ایک سال کے بچے کو ذبح کر دو (قربانی ہو جائے گی) لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایک سال کے بچے کی قربانی نہ ہو گی۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: محمد (بن يوسف) پر سفیان سے یہ بھی پڑھا گیا ”اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2005]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 983، 5556]، [مسلم 1961]، [أبوداؤد 2800]، [ترمذي 1508]، [ابن حبان 5906] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے بعد گھر واپسی سے پہلے قربانی (ذبح کر دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2006]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں ایک شخص کے نماز سے پہلے قربانی کرنے کا ذکر کیا ہے اور اس کے فاعل غالباً وہ خود ہیں، یہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [بخاري 951، 955]، [مسلم 1961]، [الموطأ فى الأضاحي 4]، [ابن حبان 5905] وضاحت:
(تشریح احادیث 2000 سے 2002) پہلی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کر دی اور یہ اس لئے کہ سب سے پہلے قربانی کرنے والوں میں ان کا نام لکھا جائے، جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے۔ اور یہ چیز صحابۂ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی اعمالِ صالحہ میں سبقت اور شدید حرص پر دلالت کرتی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص نماز اور امام سے پہلے قربانی کر دے اس کی قربانی درست نہیں، اس کو دوبارہ قربانی کرنی ہوگی، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔ یہاں امام سے مراد خلیفہ اور حاکم ہے اور مقصد امام کی اتباع ہے جو اسلامی امور میں ہر لحظہ مطلوب ہے۔ موجودہ دور میں بھی اس پر عمل کیا جائے تو بہت اچھا ہے۔ ایک اور مسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بکرے کی قربانی میں دانتا ہوا مسنہ ہونا چاہے، ایک سال کے بکری کے بچے کی قربانی کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کی مجبوری کی وجہ سے دی تھی، کیونکہ ان کے پاس اور قربانی کا جانور موجود نہ تھا، اور پھر یہ بھی وضاحت فرما دی کہ تمہارے بعد تمہارے علاوہ کسی اور کو ایک سال کے بکری کے بچے کی قربانی کی اجازت نہیں ہے۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں قربانی کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ قربانی اپنے اپنے گھروں میں کرنی چاہیے، قربان گاہ یا عید گاہ کے آس پاس بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہڈی و گوشت وغیرہ راستے میں نہیں پھینکنے چاہئیں، اس میں نعمتِ الٰہی کی بے حرمتی بھی ہے اور راستہ چلنے والوں کو ایذا و تکلیف میں مبتلا کرنا بھی ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|