من كتاب الاضاحي قربانی کے بیان میں 4. باب مَا يُجْزِئُ مِنَ الضَّحَايَا: قربانی کے لئے کتنی عمر کا جانور کافی ہے
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو میرے حصے میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا؟ فرمایا: ”اسی کی قربانی کر دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1996]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5547]، [مسلم 1965]، [ترمذي 1500]، [نسائي 4392]، [أبويعلی 1758]، [ابن حبان 5898] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے (قربانی کی) بکریاں عطا کیں، چنانچہ میں نے انہیں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک سال سے کم کا ایک بچہ بچا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کی قربانی کر دو۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «عتود» بکری کے بچے کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1997]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 5555، 4300]، [ابن ماجه 3138] وضاحت:
(تشریح احادیث 1991 سے 1993) قربانی کے لئے بکرا دانتا ہوا مسنۃ ہونا چاہئے، چھوٹے بچے کی قربانی جائز نہیں، پہلی حدیث میں جذع کا لفظ ہے اس کی تشریح عتود سے ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بکری کا بچہ ایک سال کا ہونا چاہئے، کیونکہ روایتِ صحیحہ میں ہے کہ یہ حکم صرف سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے لئے تھا۔ جذع عربی میں ایسے جانور کو کہتے ہیں جو جوان و قوی ہو گیا ہو اس لئے پانچ سال کے اونٹ کو جذع کہا جاتا ہے، گائے اور بکری کے اس بچے کو جذع کہتے ہیں جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں لگ جائے، اور بھیڑ میں جذع وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو یا کچھ کم، اور گائے میں بعض نے کہا جذع وہ ہے جو تیسرے سال میں لگ جائے۔ بعض علماء نے بھیڑ کے چھ مہینے کے بچے کی قربانی کی اجازت دی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ بھیڑ بکری ہر ایک میں دانتا ہوا جانور ہو یا ایک سال کا ہو گیا ہو۔ کیونکہ حدیث ہے: «لَا تَذْبَحُوْا إِلَّا مُسِنَّةً.» ”تم قربانی کرو دنتے ہوئے جانور کی۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|