الاخلاق والبروالصلة اخلاق، نیکی کرنا، صلہ رحمی अख़लाक़, नेकी करना और रहमदिली حسن اخلاق اور اس کی فضیلت “ अच्छा अख़लाक़ और उसकी फ़ज़ीलत ”
معبد جہنی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم احادیث بیان کرتے تھے، اور ان کلمات کو تو کم ہی چھوڑتے تھے (یا راوی نے کہا کہ) جمعہ کے خطبوں میں بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطا کر دیتے ہیں۔ یہ مال میٹھا، سرسبز و شاداب (اور پرکشش) ہے، جو اس کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت کی جائے گی اور تم لوگ ایک دوسرے تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ ایسے کرنا ذبح کرنے کے (مترادف ہے)۔“
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ترازو میں سب سے بھاری عمل، اچھا اخلاق ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سے لوگ بہت بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اخلاق کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے ہیں۔“
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح بیٹھے ہوئے تھے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں، ہم میں سے کوئی بھی کلام نہیں کر رہا تھا۔ اچانک چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے بندوں میں سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اخلاق کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سفر کا ارادہ کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی وصیت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔“ انہوں نے کہا، اے اللہ کے نبی! مزید وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو برائی کرے تو فوراً نیکی کر۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! اور کوئی وصیت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثابت قدم رہ اور اپنے اخلاق کو اچھا کر۔“
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قوم کی طرف بھیجا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی وصیت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اللہ تعالیٰ سے اتنا حیاء کرو جتنا کہ تم اپنے گھر کے فرد سے کرتے ہو، جب گناہ ہو جائے تو (اس کا اثر ختم کرنے کے لیے) فوراً نیکی کرو اور حسب استطاعت اپنے اخلاق کو اچھا بناؤ۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کے لحاظ سے مومنوں میں سے مکمل وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت بہتر ہوں، جو اپنے کندھے بچھا کر رکھتے ہوں اور جو محبت کرتے ہوں اور ان سے محبت کی جاتی ہو اور ایسے شخص میں تو کوئی خیر ہی نہیں جو نہ خود محبت کرتا ہو اور نہ اس سے محبت کی جاتی ہو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایمان کے لحاظ سے سب سے مکمل مومن وہ ہے، جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو اور بیشک حسن اخلاق، روزے اور نماز کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے، مہربانی اور بلند اخلاق کو پسند کرتا ہے اور ردی اخلاق سے نفرت کرتا ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ آدمی حسن اخلاق کی وجہ سے رات کو قیام کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کے مرتبوں کو پا لیتا ہے۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ آدمی اخلاق حسنہ کی وجہ سے رات کو بیدار رہ کر (قیام کرنے والے) اور دوپہر کی گرمیوں میں پیاس برداشت کرنے والے (روزہ دار) کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”راہ راست پر گامزن مسلمان اپنے عمدہ مزاج اور حسن اخلاق کی وجہ سے بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ لمبا قیام کرنے والے کے مرتبے کو پا لیتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب وہ آدمی ہے، جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریبی وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہوں اور تم میں سے میرے ہاں سب سے زیادہ نفرت والے اور روز قیامت مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو فضول بولنے والے، گفتگو کے لیے باچھوں کو موڑنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں۔“ صحابہ نے کہا: ہم «ثرثارون» اور «متشدقون» کا معنی تو سمجھتے ہیں، «متفيقهون» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکبر کرنے والے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو صرف اس (مقصد) کے لیے مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں۔“
طاؤس سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہی اچھے اخلاق کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور وہی ہے جو برے اخلاق کو دور کرتا ہے۔“
سیدنا ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل جنت کو واجب کر دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس تو عمدہ کلام کرنے اور کھانا کھلانے کو لازم پکڑ۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: ”جس کو نرمی عطا کی گئی، اس کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی سے نواز دیا گیا اور صلہ رحمی، حسن اخلاق اور پڑوسی سے اچھا سلوک (جیسے امور خیر) گھروں (اور قبیلوں) کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون سی چیز بکثرت لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا ڈر اور حسن خلق اور جو چیز سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گی، وہ منہ اور شرمگاہ ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے بلحاظ اسلام بہترین لوگ وہ ہیں، جو اخلاق کے اعتبار سے بہت اچھے ہیں، بشرطیکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کر لیں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار میں، میں نے ایک رقعہ پایا اس میں لکھا تھا: ”جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلح رحمی کر، جو تیرے ساتھ برا معاملہ کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر اور حق بات کہہ اگرچہ وہ تیری ذات کے خلاف ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم کے بیٹے نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو نماز، باہمی اصلاح اور حسن اخلاق سے بہتر ہو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملے اور فرمایا: ”اے ابوذر! کیا میں تجھے دو خوبیوں سے آگاہ نہ کر دوں، جن کی ادائیگی آسان ہے، لیکن وہ ترازو میں دیگر تمام نیکیوں سے بھاری ہوں گی؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حسن خلق اور طویل خاموشی کو لازم پکڑ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مخلوقات نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو (ان دو نیکیوں کے) برابر ہو۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں، جس نے حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیا (اور اپنے حق سے دستبردار ہو گیا) اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے مزاح کے طور پر بھی جھوٹ نہیں بولا اور اس شخص کے لیے جنت کے بلند ترین حصے میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس کا اخلاق اچھا ہوا۔“
|