الاخلاق والبروالصلة اخلاق، نیکی کرنا، صلہ رحمی अख़लाक़, नेकी करना और रहमदिली بڑی مفسدت سے بچنے کے لیے چھوٹی مفسدت کا ارتکاب کرنا درست ہے “ बड़ी बुराई से बचने के लिए छोटी बुराई कर लेना ठीक है ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے شخص تھے، ان کی حیا کی وجہ سے ان کے بدن کا کوئی حصہ دیکھا نہیں جا سکتا تھا، بنو اسرائیل کے جن لوگوں نے آپ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تھی، انہوں نے کہا: یہ آدمی اپنے کسی جسمانی عیب کی وجہ سے اتنا پردہ کرتا ہے، یا تو پھلبہری ہے یا خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ان کی لگائی ہوئی تہمت سے بری کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام خلوت میں گئے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے، پھر غسل کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے گئے۔ (لیکن ہوا یہ کہ) پتھر آپ کے کپڑوں سمیت بھاگ پڑا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑ پڑے، اے پتھر! میرے کپڑے دے جا۔ اے پتھر! میرے کپڑے دے جا۔ (دوڑتے دوڑتے) وہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے آپ کو برہنہ حالت میں دیکھا اور اللہ کی مخلوق میں آپ کو سب سے حسین اور اپنے لگائے ہوئے عیب سے مکمل بری پایا۔ انہوں نے خود کہا: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام میں تو کوئی نقص نہیں ہے۔ وہاں پتھر ٹھہر گیا، آپ نے اپنے کپڑے لیے اور پہنے اور لاٹھی سے پتھر کو مارنا شروع کر دیا۔ اللہ کی قسم! اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ نشانات بھی تھے اور یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (کا مصداق ہے): «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّـهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّـهِ وَجِيهًا» (۳۳-الأحزاب:۶۹)”اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ، جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی تو اللہ نے اسے اس (تہمت) سے بری قرار دیا جو انہوں نے لگائی تھی اور وہ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت و مرتبت والے تھے۔“
|