الاخلاق والبروالصلة اخلاق، نیکی کرنا، صلہ رحمی अख़लाक़, नेकी करना और रहमदिली صلہ رحمی “ रहमदिली यानि सहानुभूति ”
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صلہ رحمی کرو۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا: ”قرابتوں (کا خیال رکھو)، رشتہ داریوں (کا خیال رکھو)۔“
اسحاق بن سعید سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ کو میرے باپ نے بیان کیا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تها، ان کے پاس ایک آدمی آیا، انہوں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے دور کی رشتے داری کا تعلق بیان کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے نرمی سے بات کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے نسب کی معرفت حاصل کرو، تاکہ صلہ رحمی کر سکو۔ کیونکہ رشتوں کے قریبی ہونے کا (کوئی مقصد نہیں) جب سرے سے قطع رحمی کر دی جائے اگرچہ وہ رشتے بہت ہی قریبی ہوں۔ اور رشتوں کے بعید ہونے (کا کوئی معنی نہیں) جب صلہ رحمی کی جائے، اگرچہ وہ بہت دور کی قرابتیں ہوں۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات امور کا حکم دیا: ”(۱) مسکینوں سے محبت کرنے اور ان کے قریب رہنے کا حکم دیا (۲) اپنے سے کم تر شخص کو دیکھنے اور اپنے سے برتر شخص کی طرف توجہ نہ کرنے کا حکم دیا (٣) مجھے صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا اگرچہ وہ رخ پھیرنے لگے (٤) مجھے حکم دیا کہ میں کسی سے کوئی سوال نہ کروں (٥) مجھے حکم دیا کہ میں حق بات کہوں، اگرچہ وہ کڑوی ہو۔ ( ۶) مجھے حکم دیا کہ میں اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں اور ( ۷) مجھے حکم دیا کہ میں کثرت سے «لاحول ولا قوة الا بالله» پڑھوں، کیونکہ یہ کلمات عرش سے نیچے والے خزانوں میں سے ہیں۔“ اور ایک روایت میں ہے: ” یہ کلمات جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو صلہ رحمی اللہ کی کمر پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔ اللہ نے فرمایا: ”رک جا“، صلہ رحمی نے کہا: قطع رحمی سے پناہ طلب کرنے والے کا یہ مقام ہے۔ اللہ نے فرمایا: ”ہاں۔“ کیا تو (اس منقبت پر) راضی نہیں ہو گی کہ جس نے تجھے ملایا میں بھی اس کو ملاوں گا اور جس نے تجھے کاٹا میں بھی اسے کاٹ دوں گا؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”سو یہی (مقام) تیرا ہے۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو: «فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (۲۲) أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ (۲۳) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (۲۴)» ”اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی بصارت اللہ تعالیٰ نے چھین لی ہے۔ کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بلاشبہ صلہ رحمی رحمٰن کی کمر کو پکڑنے والی شاخ ہے۔ وہ (اللہ) اس کو ملانے والے کو ملا لیتا ہے اور اس کو کاٹنے والے کو کاٹ دیتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے اپنی انگلی کو مروڑا اور فرمایا: ”صلہ رحمی رحمٰن سے ملی ہوئی شاخ ہے۔ اس کی ایک فصیح و بلیغ زبان ہے، جیسے چاہتی ہے کلام کرتی ہے۔ جس نے اس (صلہ رحمی) کو ملایا اللہ اس کو ملائے گا اور جس نے اس کو کاٹ دیا اللہ تعالیٰ اس کو کاٹ دے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، (صورتحال یہ ہے کہ) میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں، لیکن وہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں جبکہ وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور میں (ان کے بارے میں) حکمت و دانائی سے کام لیتا ہوں جبکہ وہ جہالت سے پیش آتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر بات ایسے ہی ہے جیسا کہ تو کہہ رہا ہے تو، تو ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ جب تک تیری یہ کیفیت رہے گی، الله کی طرف سے ہمیشہ تیرے ساتھ ایک مددگار رہے گا۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: ”جس کو نرمی عطا کی گئی، اس کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی سے نواز دیا گیا اور صلہ رحمی، حسن اخلاق اور پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے (جیسے امور خیر) گھروں (اور قبیلوں) کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔“
سیدنا سوید بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلہ رحمی کو تروتازہ رکھو، اگرچہ سلام کے ذریعہ ہی ہو۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر رحم کرے گا، لہٰذا تم زمین والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان والا تم پر رحم کرے۔ (دراصل) رحم (یعنی صلہ رحمی) رحمٰن کی شاخ ہے۔ جس نے اس کو ملایا، اللہ اس کو ملائے گا اور جس نے اس کو کاٹا، اللہ اس کو کاٹ دے گا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار میں، میں نے ایک رقعہ پایا اس میں یہ تھا: ”جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلح رحمی کر، جو تیرے ساتھ برا معاملہ کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر اور حق بات کہہ اگرچہ وہ تیری ذات کے خلاف ہی ہو۔“
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابورداد لیثی رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی تیمارداری کرنے کے لیے آئے۔ ابورداد نے کہا: (یہ عبدالرحمٰن) سب سے بہتر اور سب سے بڑھ کر تعلق قائم کرنے والے ہیں۔ اے ابو محمد! تو نے کیا جانا ہے؟ عبدالرحمٰن نے کہا: میں نے سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ بھی ہوں اور میں رحمٰن بھی ہوں۔ میں نے رحم (یعنی قرابتداری) کو پیدا کیا اور اپنے نام سے اس کا اشتقاق کیا۔ جس نے اس کو ملایا میں اس کو ملاؤں گا اور جس نے اس کو کاٹا میں اس کو کاٹ دوں گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے (جن احکام کی) پیروی کی جاتی ہے ان میں صلہ رحمی سے جلدی کسی چیز کا ثواب نہیں ملتا اور ظلم اور قطع رحمی کہ بہ نسبت کوئی (جرم ایسا نہیں کہ) جس کی سزا جلدی دی جاتی ہو اور جھوٹی قسم تو علاقوں کو ویران کر دیتی ہے۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی رشتہ دار اپنے کسی قرابتدار کے پاس جا کر ایسی زائد چیز کا سوال کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہوتی ہے، لیکن وہ کنجوسی کرتا ہے (اور نہیں دیتا) تو ایسے آدمی کے لیے روز قیامت جہنم سے سانپ نکالا جائے گا، جو اپنی زبان نکالے ہوئے ہو گا اور جسے «شجاع» کہتے ہوں گے، اسے ایسے آدمی کا طوق قرار دیا جائے گا۔“
|