(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال البصري، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري. ح وحدثنا هارون بن عبد الله البزاز، حدثنا سيار، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري المعنى واحد، عن ابي عثمان النهدي، عن حنظلة الاسيدي وكان من كتاب النبي صلى الله عليه وسلم: " انه مر بابي بكر وهو يبكي، فقال: ما لك يا حنظلة؟ قال: نافق حنظلة يا ابا بكر نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا إلى الازواج والضيعة نسينا كثيرا، قال: فوالله إنا لكذلك انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقنا فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما لك يا حنظلة؟ قال: نافق حنظلة يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا عافسنا الازواج والضيعة ونسينا كثيرا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو تدومون على الحال الذي تقومون بها من عندي لصافحتكم الملائكة في مجالسكم وفي طرقكم وعلى فرشكم، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة وساعة وساعة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2452، 2514 (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: 2526)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن شعبة، عن قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه " , قال: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مومن کامل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے، اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت، بددیانتی، جعل سازی، لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کرنا ہو گا، إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہو جائیں گی، ورنہ ذلت اور بداخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا ليث بن سعد، وابن لهيعة , عن قيس بن الحجاج، قال. ح وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا ابو الوليد، حدثنا ليث بن سعد، حدثني، قيس بن الحجاج , المعنى واحد , عن حنش الصنعاني، عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: يا غلام , " إني اعلمك كلمات: احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك إذا سالت فاسال الله وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على ان يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الاقلام وجفت الصحف " , قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي، قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ , الْمَعْنَى وَاحِدٌ , عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ , " إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5302)، ظلال الجنة (316 - 318)