كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع 1. باب فِي الْقِيَامَةِ باب: قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان۔
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 49 (6539)، والتوحید 24 (7443)، و36 (7512)، صحیح مسلم/الزکاة 20 (1016)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (185)، والزکاة 28 (1843) (تحفة الأشراف: 9852)، و مسند احمد (4/256) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے، اور نیک عمل کرتا رہے، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (185)
ابوسائب کہتے ہیں کہ ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
وضاحت: ۲؎: جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (185)
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم «عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور حسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں ابوبرزہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9346) (صحیح) (سند میں حسین بن قیس ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم: 946)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کے مطابق جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہو گا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے، کیونکہ اس کا حساب دینا ہے، جوانی میں انسان اپنے آپ کو محرمات سے بچائے، اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہو گا، اسی طرح مال کے سلسلہ میں اسے کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کا ڈر دامن گیر رہے، علم کے مطابق عمل کی بابت سوال ہو گا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و شریعت کا علم حاصل کرے، کیونکہ یہی اس کے لیے مفید اور نفع بخش ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (946)، التعليق الرغيب (1 / 76)، الروض النضير (648)
ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن عبداللہ بن جریج بصریٰ ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوبرزہ کا نام نضلہ بن عبید ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11597) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (946)، التعليق الرغيب (1 / 76)، الروض النضير (648)، تخريج اقتضاء العلم العمل (15 / 1)
|