كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع 28. باب مِنْهُ باب:۔۔۔
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں“، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیہ 1 (3158)، والمغازي 12 (4015)، والرقاق 7 (6425)، صحیح مسلم/الزہد 1 (2961)، سنن ابن ماجہ/الفتن 18 (3997) (تحفة الأشراف: 10784) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کر دیا، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3997)
|