كتاب تحريم الدم کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل 26. بَابُ: مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ ثُمَّ وَضَعَهُ فِي النَّاسِ باب: جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنی تلوار باہر نکال لے پھر اسے چلانا شروع کر دے تو اس کا خون رائیگاں اور بیکار ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5262) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 2345، وتراجع الالبانی 224)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: ناحق مسلمانوں کو مارنے لگے تو اس کے قتل میں نہ دیت ہے نہ قصاص۔ قال الشيخ الألباني: شاذ
عبدالرزاق بھی اس سند سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں، لیکن وہ اسے مرفوع نہیں کرتے (یعنی ابن زبیر کا قول بیان کرتے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے ہتھیار اٹھایا اور اسے لوگوں پر چلایا تو اس کا خون رائیگاں اور بیکار ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4102 (صحیح موقوف)»
قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 7 (7070)، صحیح مسلم/الإیمان 42 (98)، (تحفة الأشراف: 8364)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحدود 19 (2576)، مسند احمد (2/3، 53) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں بھی ”ہتھیار اٹھانے“ سے مراد ”ناحق ہتھیار“ اٹھانا ہے، مسلمانوں کی ناحق خونریزی پر یہ شدید وعید سنائی گئی ہے کہ ایسے عمل کے مرتکب کو اگر قتل کر دیا جائے تو اس کے خون کا نہ تو قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اور یہ کہ ایسا آدمی امت محمدیہ کے زمرہ سے خارج ہے۔ «فاعتبروا یا أولی الأبصار» (عبرت حاصل کرنی چاہیئے)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی لگا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی (جو بنی مجاشع کے ایک شخص تھے)، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (جو بنی کلاب کے ایک شخص تھے)، زید الخیل طائی (جو بنی نبہان کے ایک شخص تھے) کے درمیان تقسیم کیا، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اس پر قریش اور انصار غصہ ہوئے اور بولے: آپ اہل نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تو صرف ان کی تالیف قلب کر رہا ہوں“، اتنے میں ایک شخص آیا، اس کی آنکھیں بیٹھی ہوئی تھیں، گال پھولے ہوئے تھے، داڑھی گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ وہ بولا: محمد! اللہ سے ڈرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں ہی نافرمانی کرنے لگا تو اللہ کی اطاعت کون کرے گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ زمین والوں پر امین بنا رہا ہے اور تم میرا اعتبار نہیں کرتے۔ اتنے میں لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی، آپ نے اسے منع فرما دیا۔ جب وہ لوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے خاندان میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق کے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں انہیں پا جاؤں تو انہیں عاد کے لوگوں کی طرح قتل کروں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2579 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کتاب تحریم الدم یا کتاب المحاربۃ (جنگ) سے مطابقت اسی جملے سے ہے، یعنی: خارجیوں کا خون بہانا جائز ہے، اس لیے علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کم سن اور کم عقل ہوں گے، بات چیت میں وہ لوگوں میں سب سے اچھے ہوں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، لہٰذا جب تم ان کو پاؤ تو انہیں قتل کرو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن اجر ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3611)، فضائل القرآن 36 (5057)، المرتدین 6 (6930)، صحیح مسلم/الزکاة 48 (1066)، سنن ابی داود/السنة 31 (4767)، (تحفة الأشراف: 10121)، مسند احمد (1/81، 113، 131) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
شریک بن شہاب کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں صحابہ رسول میں سے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق سوال کروں، تو میری ملاقات عید کے دن ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگردوں کی جماعت میں ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کا تذکرہ کرتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپ کے پاس کچھ مال آیا، آپ نے اسے تقسیم کیا اور اپنے دائیں اور بائیں جانب کے لوگوں کو دے دیا اور اپنے پیچھے والوں کو کچھ نہیں دیا۔ ایک شخص آپ کے پیچھے سے کھڑا ہوا اور بولا: محمد! آپ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ ایک کالا (سانولا) شخص تھا، جس کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! تم میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں پاؤ گے جو مجھ سے زیادہ عادل ہو“۔ پھر فرمایا: ”آخری دور میں کچھ لوگ ہوں گے (شاید) یہ بھی انہیں میں سے ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کی ہنسلی سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ سر منڈائے ہوں گے ۱؎، وہ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا، لہٰذا جب تم انہیں پاؤ تو قتل کر دو، وہ بد نفس اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: شریک بن شہاب مشہور نہیں ہیں ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11598)، مسند احمد (4/421، 424، 425) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 2406، و تراجع الالبانی 422)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ استدلال قطعا درست نہیں ہے کہ سر منڈانا نعوذباللہ مکروہ ہے کیونکہ کسی چیز کا کسی قوم کے لیے علامت و شناخت بننا یہ اس کے مباح ہونے کے منافی نہیں ہو سکتا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کے کچھ حصوں کا بال منڈا ہوا ہے اور کچھ کا چھوڑ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”اس کا پورا سر مونڈ دو یا پورا سر چھوڑ دو“۔ آپ کا یہ فرمان سر منڈانے کے مباح ہونے کے لیے کافی ہے۔ ۲؎: یعنی مشہور نہیں ہیں بلکہ مقبول ہیں، اور مقبول اس کو کہتے ہیں جس کی دوسرے راوی سے متابعت پائی جائے تو اس کی روایت مقبول ہو گی، ورنہ وہ لین الحدیث ہو گا، یہاں اس حدیث کے اکثر ٹکڑوں کی متابعت موجود ہے، اس لیے حدیث مقبول ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|