كتاب تحريم الدم کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل 9. بَابُ: ذِكْرِ اخْتِلاَفِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ باب: اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ پیلے پڑ گئے، ان کے پیٹ پھول گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کا دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ جب وہ ٹھیک ہو گئے تو انہوں نے ان چرواہوں کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں کچھ لوگ بھیجے، انہیں لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر ان کو پھوڑ دیا۔ امیر المؤمنین عبدالملک نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا (وہ ان سے یہ حدیث بیان کر رہے تھے): کفر (ردت) کی وجہ سے یا جرم کی وجہ سے (ان کے ساتھ ایسا کیا گیا)؟ انہوں نے کہا: کفر (ردت) کی وجہ سے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 307 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
تابعی سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ کچھ عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، پھر وہ بیمار پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کا دودھ پیئں۔ وہ انہیں اونٹنیوں میں رہے، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام چرواہے پر نیت خراب کی اور اسے قتل کر دیا اور اونٹنیاں ہانک لے گئے، لوگوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی: «اللہم عطش من عطش آل محمد الليلة» ”اے اللہ! اسے پیاسا رکھ جس نے محمد کے گھر والوں کو اس رات پیاسا رکھا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں کچھ لوگ بھیجے۔ جب وہ گرفتار کر لیے گئے تو آپ نے ان کے ہاتھ کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں۔ راویوں میں سے بعض دوسرے سے کچھ زیادہ بیان کرتے ہیں، سوائے معاویہ کے، انہوں نے اس حدیث میں کہا ہے کہ وہ ہانک کر مشرکوں کی زمین کی طرف لے گئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18752) (ضعیف الإسناد) (یہ روایت مرسل ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹا تو آپ نے انہیں گرفتار کیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17179) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 20 (2579)، (تحفة الأشراف: 17032)، ویأتي عند المؤلف: 4044، 4045) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عروہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لوٹ لیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4043 (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ عروہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لیں، انہیں ہانک لے گئے اور آپ کے غلام کو قتل کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کیے، وہ سب گرفتار کر لیے گئے، تو آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4043 (صحیح) (یہ روایت بھی مرسل ہے، اس لیے کہ عروہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اسی طرح کا واقعہ) نقل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انہیں کے سلسلے میں آیت محاربہ نازل ہوئی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 3 (4369، 4370)، (تحفة الأشراف: 7275) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوالزناد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے ہاتھ کاٹے جن ہوں نے آپ کی اونٹنیاں چرائی تھیں اور آگ سے ان کی آنکھوں کو پھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں آپ کی سرزنش کی ۱؎، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ مکمل آیت اتاری «إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله» ”ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں … الخ“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد) (یہ روایت معضل ہے، سند سے ابو الزناد کے بعد دو آدمی ساقط ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ اثر ضعیف ہے اور اس میں یہ بات کہ ابوالزناد نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عتاب کی جو بات کہی ہے غیر مناسب ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک اپنایا جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چروا ہوں کے ساتھ اپنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلوک پر صاد کیا، صرف آنکھیں پھوڑنے کی ممانعت کر دی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی آنکھیں پھوڑ دیں کیونکہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود القسامة 2 (1671)، سنن الترمذی/الطہارة 55 (73)، (تحفة الأشراف: 875) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے زیور کی لالچ میں قتل کر کے، اسے کنوئیں میں پھینک دیا اور اوپر سے اس کا سر پتھروں سے کچل دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ مر جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 3 (1672) (القسامة3) سنن ابی داود/الدیات 10 (4528)، (تحفة الأشراف: 950)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 5 (2746)، الطلاق24(تعلیقاً)، الدیات 4 (6876)، 5 (6877)، 12(6884)، سنن ابن ماجہ/الدیات 24 (2665)، مسند احمد 3/163)، سنن الدارمی/الدیات 4 (2400) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے ایک زیور کی لالچ میں قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہلاک ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ «إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله» ”ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں …“ کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے سلسلے میں نازل ہوئی، پس ان میں سے جو شخص توبہ کرنے سے پہلے اسے پکڑا جائے تو اس کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں، یہ آیت مسلمان شخص کے لیے نہیں ہے، پس جو (مسلمان) زمین میں فساد پھیلائے اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے، پھر پکڑے جانے سے پہلے کفار سے مل جائے تو اس کی جو بھی حد ہو گی، اس کے نفاذ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہو گی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 3 (4372)، (تحفة الأشراف: 6251) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لے، تو اب اس پر زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے جرم کی حد نافذ نہیں کی جائے گی، لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لے، تو بھی اس پر حد نافذ کی جائے گی اس کو معاف نہیں کیا جائے گا، یہ رائے صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے، علی رضی اللہ عنہ، نیز دیگر لوگوں نے توبہ کر لینے پر حد نہیں نافذ کی تھی (ملاحظہ ہو: عون المعبود)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|