(موقوف) اخبرنا زكريا بن يحيى، قال: حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انباني علي بن الحسين بن واقد، قال: حدثني ابي، قال: حدثنا يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس , في قوله تعالى: إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله سورة المائدة آية 33 الآية، قال:" نزلت هذه الآية في المشركين , فمن تاب منهم قبل ان يقدر عليه لم يكن عليه سبيل، وليست هذه الآية للرجل المسلم، فمن قتل , وافسد في الارض , وحارب الله ورسوله، ثم لحق بالكفار قبل ان يقدر عليه، لم يمنعه ذلك ان يقام فيه الحد الذي اصاب". (موقوف) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ النَّحْوِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة المائدة آية 33 الْآيَةَ، قَالَ:" نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْمُشْرِكِينَ , فَمَنْ تَابَ مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يُقْدَرَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ سَبِيلٌ، وَلَيْسَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، فَمَنْ قَتَلَ , وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ , وَحَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، ثُمَّ لَحِقَ بِالْكُفَّارِ قَبْلَ أَنْ يُقْدَرَ عَلَيْهِ، لَمْ يَمْنَعْهُ ذَلِكَ أَنْ يُقَامَ فِيهِ الْحَدُّ الَّذِي أَصَابَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ «إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله»”ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں …“ کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے سلسلے میں نازل ہوئی، پس ان میں سے جو شخص توبہ کرنے سے پہلے اسے پکڑا جائے تو اس کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں، یہ آیت مسلمان شخص کے لیے نہیں ہے، پس جو (مسلمان) زمین میں فساد پھیلائے اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے، پھر پکڑے جانے سے پہلے کفار سے مل جائے تو اس کی جو بھی حد ہو گی، اس کے نفاذ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہو گی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لے، تو اب اس پر زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے جرم کی حد نافذ نہیں کی جائے گی، لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لے، تو بھی اس پر حد نافذ کی جائے گی اس کو معاف نہیں کیا جائے گا، یہ رائے صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے، علی رضی اللہ عنہ، نیز دیگر لوگوں نے توبہ کر لینے پر حد نہیں نافذ کی تھی (ملاحظہ ہو: عون المعبود)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4051
اردو حاشہ: آیت محاربہ کے آخر میں یہ لفظ ہیں: ”مگر جو لوگ پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لیں تو تم جان لو کہ بے شک اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔“ اس سے کوئی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ مندرجہ بالا جرائم کرنے کے بعد گرفت میں آنے سے پہلے وہ توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ حالانکہ یہ بات مطلقاً صحیح نہیں کیونکہ ڈاکا زنی، آبرو ریزی اور قتل جیسے گناہ توبہ سے معاف نہیں ہو سکتے۔ صرف ارتداد سے توبہ ہو سکتی ہے، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ اس قسم کی معافی اس کافر کے لیے ہے جو ان جرائم کے بعد اسلام قبول کر لے کیونکہ اسلام پہلے جرائم کو ختم کر دیتا ہے، مگر اسلام کی حالت میں کوئی شخص ان جرائم کا ارتکاب کرے تو اسے توبہ کے نام پر معافی نہیں مل سکتی۔ صرف مرتد اگر نادم ہو کر توبہ کرے اور دوبارہ اسلام قبول کر لے تو اسے ارتداد کی سزا معاف کر دی جائے گی کیونکہ یہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہے جبکہ دیگر جرائم تو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ وہ توبہ سے معاف نہ ہو سکیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4051