كتاب مناسك الحج کتاب: حج کے احکام و مناسک 202. بَابُ: رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ باب: عرفات میں دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں عرفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا۔ تو آپ نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے، اتنے میں آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر مڑی تو اس کی نکیل گر گئی تو آپ نے ایک ہاتھ سے اسے پکڑ لیا، اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 111)، مسند احمد (5/209) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے، اور اپنا نام حمس رکھتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات میں، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں ٹھہریں، پھر وہاں سے لوٹیں، اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» ”جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو“ نازل فرمائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 91 (1665)، تفسیرالبقرة 35 (4520)، صحیح مسلم/الحج 21 (1219)، سنن ابی داود/الحج 58 (1910)، (تحفة الأشراف: 17195)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 53 (884) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حمس احمس کی جمع ہے چونکہ وہ اپنے دینی معاملات میں جو شیلے اور سخت تھے اس لیے اپنے آپ کو حمس کہتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ایک اونٹ کھو دیکھا، تو میں عرفہ کے دن عرفات میں اس کی تلاش میں گیا، تو میں نے وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وقوف کیے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا: ارے ان کا کیا معاملہ ہے؟ یہ تو حمس میں سے ہیں (پھر یہاں کیسے؟)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 91 (1664)، صحیح مسلم/الحج21 (1220)، (تحفة الأشراف: 3193)، مسند احمد 4/80، سنن الدارمی/المناسک 49 (1920) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
یزید بن شیبان کہتے ہیں کہ ہم عرفہ کے دن عرفات میں ”موقف“ (ٹھہرنے کی خاص جگہ) سے دور ٹھہرے ہوئے تھے۔ تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور کہنے لگے تمہاری طرف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، آپ فرماتے ہیں: تم اپنے مشاعر میں رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی میراث کے وارث ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 63 (1919)، سنن الترمذی/الحج 53 (883)، سنن ابن ماجہ/الحج 55 (3011)، مسند احمد 4/137 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو ہم ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفات سارا کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 20 (1218)، سنن ابی داود/الحج 57 (1907، 1908)، 65 (1936)، (تحفة الأشراف: 2596)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحج 73 (3048)، مسند احمد 3/321، 326، سنن الدارمی/المناسک 50 (1921)، ویأتی عند المؤلف برقم: 3048 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|