سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
63. بَابُ : تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ }
باب: آیت کریمہ: ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں“ کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 2319
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184 يُطِيقُونَهُ: يُكَلَّفُونَهُ , فِدْيَةٌ: طَعَامُ مِسْكِينٍ وَاحِدٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا سورة البقرة آية 184 طَعَامُ مِسْكِينٍ آخَرَ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ سورة البقرة آية 184 لَا يُرَخَّصُ فِي هَذَا إِلَّا لِلَّذِي لَا يُطِيقُ الصِّيَامَ، أَوْ مَرِيضٍ لَا يُشْفَى".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وعلى الذين يطيقونه» میں «يطيقونه» کی تفسیر میں کہتے ہیں معنی یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کے مکلف ہیں، (تو ہر روزہ کے بدلے) ان پر ایک مسکین کے (دونوں وقت کے) کھانے کا فدیہ ہے، (اور جو شخص ازراہ ثواب و نیکی و بھلائی) ایک سے زیادہ مسکین کو کھانا دے دیں تو یہ منسوخ نہیں ہے، (یہ اچھی بات ہے، اور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ روزہ ہی رکھے جائیں) یہ رخصت صرف اس شخص کے لیے ہے جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، یا بیمار ہو اور اچھا نہ ہو پا رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیرالبقرة25 (4505)، (تحفة الأشراف: 5945)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم3 (2318) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2319 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2319
اردو حاشہ:
(1) آیت کا اصل مفہوم تو وہی ہے جو حدیث: 2318 کے تحت بیان ہوا مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ چونکہ ذہین شخص تھے، نیز انہیں رسول اللہﷺ کی خصوصی دعا بھی تھی، لہٰذا انہوں نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ [یُطِیْقُوْنَ] سے مراد وہ انتہائی بوڑھے یا دائمی بیمار ہیں جو روزہ برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے بعد بھی ان کے لیے قوت اور صحت کی کوئی امید نہیں تو وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ دے دیں۔ چونکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ میں الگ طور پر ثابت ہے اور لغت کی مدد سے یہ معنیٰ اس آیت کے بھی بن سکتے ہیں، لہٰذا یہ معنیٰ مراد لینے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید کی بلاغت کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ بعض آیات میں ایک جملے کے دو ایسے معنیٰ مراد لیے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے مختلف ہیں (لیکن دونوں شرعاً صحیح ہیں) ایک معنیٰ سیاق وسباق کے لحاظ سے اور دوسرے معنیٰ لغت یا کسی اور لحاظ سے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ دونوں معانی الگ طور پر شرعاً ثابت ہوں اور ان کے ثبو ت کے لیے قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہوں۔ ورنہ صرف لغت یا صرف سیاق وسباق کے لحاظ سے قرآن مجید کی تفسیر کرنا جبکہ اس تفسیر کا نصوص سے تعارض ہو، تفسیر بالرائے ہے جو انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس پر ہمیشہ کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
(2) بہر صورت اس آیت کے دونوں معانی کا نتیجہ متفق علیہ ہے کہ جو شخص روزے کی طاقت رکھتا ہے، اب وہ روزہ نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اگر پہلے معنیٰ مراد ہیں تو یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی صراحت اسی حدیث میں ہے۔ اور اگر دوسرے معنیٰ مراد ہیں تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اب کوئی شخص یہ نہیں کر سکتا کہ ترجمہ تو پہلی حدیث والا کرے اور دوسرے حدیث کی بنا پر اسے غیر منسوخ کہے اور ہر شخص کو روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت دے دے کیونکہ یہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے اور بددیانتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2319