جُمَّاعُ أَبْوَابِ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ نفلی صدقہ کے متعلق ابواب کا مجموعہ 1705. (150) بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الصَّحِيحِ الشَّحِيحِ الْخَائِفِ مِنَ الْفَقْرِ، الْمُؤَمِّلِ طُولَ الْعُمُرِ عَلَى صَدَقَةِ الْمَرِيضِ الْخَائِفِ نُزُولَ الْمَنِيَّةِ بِهِ ایسا مریض جسے زندگی کی امید نہ ہو بلکہ موت سے خوفزدہ ہو اس کے صدقہ پر صحت مند، مال کی حرص رکھنے والے، فاصلہ محتاجی سے ڈرنے والے اور طویل عمر کی امید رکھنے والے شخص کے صدقہ کی فضیلت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کونسا صدقہ اجر و ثواب میں عظیم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارا اس حال میں صدقہ کرنا کہ تم صحت مند ہو۔ مال کا طمع رکھتے ہو، فقر و فاقہ کا تمہیں ڈر ہو اور تمہیں زندگی کی امید۔ ہو اس وقت کا انتظار نہ کرو حتّیٰ کہ جب جان حلق میں پہنچ جائے تو تم کہو کہ فلاں کے لئے اتنا مال ہے۔ فلاں شخص کو اتنا مال دیدو، وہ تواب دوسروں کا ہوہی چکا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں یہ الفاظ ”کہ وہ تو اب دوسروں کا ہو چکا ہے۔“ یہ مسئلہ اسی قسم کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وقت قریب ہو جائے تو یہ کہنا جائز ہے کہ وقت ہوچکا ہے اور ”دَخَلَ اْلوَقْتُ“ (وقت ہوگیا) اس وقت کہتے ہیں جب وقت قریب ہوجائے اور یہ مال دوسروں کا ہوچکا ہے اگرچہ ابھی وقت نہیں ہوا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ یہ مال اب دوسروں کا ہوچکا ہے۔ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اب اس شخص کی موت قریب آچکی ہے کیونکہ جان حلق میں اٹکی ہوئی ہے تو یہ مال اب دوسروں کا ہو جائیگا۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کی جان نکلنے سے پہلے ہی یہ مال دوسروں کا ہو جائیگا۔ اسی قسم سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہے کہ بلا شبہ فلاں شخص اس کا وارث ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|